عمران خان کی حکومت کو اس وقت دو مسائل کا سامنا ہے۔ ایک مسئلہ تحریک عدم اعتماد کا ہے اور دوسرا سیاسی تنہائی کا! دوست تو وہ ہوتا ہے جو مشکل میں کام آئے مگر سیاست کی دنیا دوستی کے رشتے سے آشنا نہیں ہے۔ سیاست میں اتحادی ہوا کرتے ہیں۔ وہ اتحادی جو کسی بھی وقت چھوڑ جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگر حکومت کے ساتھ اس کے اتحادی چٹان کی طرح کھڑے رہتے تو آج عمران خان کی پیشانی پر کوئی شکن نظر نہ آتی۔ مگر عمران خان کو مسائل میں گھرا دیکھ کر اس کو چھوڑ جانے کی تیاری کرنے والے ان کے اتحادی نہ صرف ان کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں بلکہ حزب اختلاف جو زخم حکومت کے وجود پر لگا رہی ہے اس پر حکومت کے اتحادی نمک پاشی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جس طرح کی ملاقاتوں اور ان ملاقاتوں کے بعد جس قسم کے تبصروں کا سلسلہ عمران خان کے اتحادیوں نے شروع کیا،وہ بہت افسوسناک تھا۔ملک کی سیاست کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ وہ سبق اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ کبھی بھی اتحادیوں کے آسرے پر حکومت بنانے کی غلطی نہیں کی جانی چاہئیے۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت میں اتحادیوں کی شمولیت غلط عمل ہے۔ مگر اتحادیوں کی بنیاد پر حکومت کو کھڑا کرنا اپنے آپ کو ہر وقت بلیک میلنگ کا شکار رکھنے کے برابر ہے۔ اگر تحریک انصاف کے پاس اپنی سادہ اکثریت ہوتی تو آج وہ اتحادیوں کی طرف اس طرح نہ دیکھتی جس طرح دیکھنے کا تذکرہ کرتے ہوئے احمد فراز نے لکھا ہے: ’’یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے‘‘ عمران خان کی حکومت میں شامل،اتحادی ایک طرف حکومتی مزے لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ عمران خان کے سیاسی دشمنوں سے کھل کر مل رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال ویسی نہیں جیسی صورتحال کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا: ’’یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہولیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو؟‘‘ ایک طرف اتحادی حکومت میں بھی شامل ہیں اور دوسری طرف وہ حکومتی کشتی کو ڈبونے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ کاش! ان کو کوئی سمجھائے کہ جس کشتی میں سفر کرتے ہیں،اس میں سوراخ نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ ہے اس وقت تو عمران خان کے اتحادی حزب اختلاف کی آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں مگر ان کے لیے ملکی سیاست میں کیسا تاثر رہے گا؟ حکومت کے اتحادی ایسے ہیں کہ وہ کبھی بھی حکومت بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا قد اور ان کا وزن اتنا ہے کہ کوئی انہیں اپنی حکومت میں شامل کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت مشکل حالات میں چھوڑ جائے اس پر کون بھروسہ کرے گا؟ سیاست میں امیج بہت اہم ہوا کرتا ہے۔عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک سے اس قدر نقصان نہیں پہنچے گا،جس قدر ان کے اتحادیوں کو بے وفا بننے سے نقصان پڑنے کا اندیشہ ہے۔کیوں کگ سیاست میں اعتماد کی اہمیت بنیادی ہوا کرتی ہے۔آج جو افراد عمران خان سے دغا کرسکتے ہیں ؛ کل وہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ سکتے؟آج اگر عمران خان کے اتحادی حکومت کے ساتھ کھڑے رہتے تو کل بننے والی کوئی بھی حکومت انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی۔ مگر ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاست میں صبر کرنے کو غلطی تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ سیاست تحمل اور بردباری کا نام ہوا کرتا ہے۔ جس سیاست میں صبر اور بردباری نہیں وہ سیاست کسی کام کی نہیں ہوا کرتی۔ اسلام آباد اس وقت ایسے اسٹیج کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں ایک عرصے سے سیاسی تماشے ہو رہے ہیں۔ جب کہ ہمارا ملک ایسے حالات سے دوچار ہے کہ یہ کسی بھی قسم کا تماشہ افورڈ نہیں کرسکتا۔ ایک طرف پاکستان پر بھارت کی آنکھیں گڑی ہیں اور دوسری طرف عالمی سیاست کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ پاکستان کے لیے ابتدائی آزمائش کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی تماشے کے بجائے سیاسی قوتوں کو مل کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ مگر اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کے لیے ملکی مفاد کا سودا کرنا تو ہم نے سیاست کا پہلا سبق سمجھا ہے۔ قومی مفاد ہمارے لیے کون سی اہمیت رکھتا ہے؟ ہم اس بارے میں بہت خوش قسمت نہیں ہیں۔ مگر ہم کو یہ بات تو تسلیم کرنا ہوگی کہ ملک کی اصل پہچان اس کی سیاست ہوا کرتی ہے۔ اگر اس سیاست میں حب الوطنی کا عنصر نہ ہو تو پھر غیرملکی قوتیں کسی بھی وقت ملک پر جھپٹ سکتی ہیں۔ عمران خان کی حکومت رہتی ہے یا نہیں رہتی۔ اس سوال سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ملک ہر صورت رہے گا۔ اس ملک کے لیے کون سی بات بہتر ہے اور کون سی بات بدتر ہے؟ جب تک ہماری سیاسی قوتیں ان پر نہیں سوچیں گی، تب تک ہم ملک کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ اصل اہمیت کسی جماعت یا کسی حکومت کی نہیں ہے۔ اصل اہمیت ریاست کی ہے۔ ہمارے کیا کسی بھی ملک کے ریاستی مفاد میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ ملک سیاسی بحران کا ایسا بیمار نظر آئے جو قابل علاج نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سیاسی طور پر بیمار ملک میں بستے ہوں اور ہم ترقی کے خواب دیکھیں؟ ترقی کے لیے سیاسی صحت کا ہونا لازمی ہوا کرتا ہے اور جب سیاسی جماعتیں جراثیم بن کر ملک کے وجود سے چمٹ جائیں تو پھر اس صورتحال پر افسوس کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر افسوس ملکی مفاد کے نقصان کا مداوا کرسکتا تو پھر اس سے آسان علاج اور کیا ہوسکتا تھا۔ آج ہمارا ملک دوستوں کے لیے درد اور دشمنوں کے لیے خوشی کا سیاسی منظر پیش کرہا ہے۔ کیوں کہ سیاسی جماعتیں ماضی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے وہی غلطیاں دہرا رہی ہیں جو غلطیاں تیسری دنیا کا ایسا ملک برداشت نہیں کر پاتا جو سیاسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہو۔ ایک طرف ہماری حکومتیں سرمایہ کاری کے لیے غیرملکی کمپنیوں کو دعوت دیتی ہیں اور دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتیں کسی حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ کیا کوئی بھی ملک یا کوئی سرمایہ دار کمپنی اتنا بڑا رسک لے سکتی ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ لگائے جس ملک کی حکومت کے بارے میں یقین نہ ہو کہ کب ختم ہوگی؟ ہم کب سمجھیں گے کہ اہم معاملہ ہمارا نہیں بلکہ اس ملک کا ہے۔ یہ ملک جس کے ہونے سے ہم ہیں۔ یہ ملک جو ہمارے لیے اس دنیامیں ایسی کشتی ہے جس کو اگر خدا نخواستہ نقصان ہوا تو دنیا کی کوئی ملکی کشتی ہماری مدد کرنے اور ہمیں بچانے نہیں آئے گی۔ اس کشتی کے دم سے ہم اس وقت دنیا کے سیاسی سمندر میں تیر رہے ہیں اور اگر ہم اس کشتی کو بچانے کے لیے ناخدا سے تعاون کریں گے تو نہ صرف کشتی بچ جائے گی بلکہ ہم کو وہ ساحل بھی حاصل ہوگا جس ساحل کے لیے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔