شہزادہ دائود یا دائود خاندان کی انسانی دوستی اور مخیرانہ کاموں کا تذکرہ یہاں ضروری نہیں۔اس خاندان کی طرف سے انسان دوستی کا ایک ایک عمل خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس خاندان کو اگر رب جلیل نے اپنی نعمتوں سے نوازا تو انہوں نے بھی حسن معاشرت قائم کر نے اور مستحق افراد کے دکھ کو بانٹنے کے لئے اپنا حصہ پورا پورا ادا کیا۔ سوشل میڈیا پر ماضی ، حال اور مستقبل سے بے بہرہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے دائود فیملی پر تنقید کے تیر برسانا شروع کر دیے۔ ابھی یونان کے نیلے پانیوں میں کئی جوان سال خواب بہنے کی باز گشت کم نہ ہوئی تھی کہ ایک اور سانحہ ہو گیا۔ حیرت ہے سوشل میڈیا پرلوگ دائود خاندان پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں ناقدین میں سے بیشتر وہ ٹین ایجر ہوں گے جو شاید نہیں جا نتے کہ سیٹھ احمد دائود کا خاندان اس وقت پاکستان کے امیر ترین خاندان میں سے ایک تھا جب  آزادی کے بعد  وطن عزیز  معاشی طور پر رینگ رہا تھا۔ یہ ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے نہ صرف روز گار کے مواقع پیدا کئے بلکہ ایک نوزائیدہ مملکت کی بنیادوں کو بھی استحکام بخشا۔ سیٹھ احمد داود، سیف الدین ولیکا، لارنس پور والے، سیٹھ آدم، آدم جی ٹیکسٹائل والے ، سہگل فیملی کوہ نور والے، ایم ایچ اصفہانی، اصفہانی چائے والے اور ایسے چند ایک خاندان  جو اس وقت انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ ان خاندانوں نے ایک نوزائیدہ مملکت کو پروان چڑھانے اور معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ وہ خاندان تھے جنہوں نے  اس مملکت کی  بنیادوں کو معاشی طور پرمستحکم کیا۔کھوکھلا نہیں۔ حقائق جانے بغیر دائود فیملی کے بارے ہرزہ سرائی کرنا اچھی بات نہیں۔ تنقید کا لفظ اس لئے نہیں لکھاکہ ناقد ہمیشہ علم رکھنے والا ہوتا ہے۔ تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ دائود فیملی نے معاشرتی بھلائی کے لئے کئی منصوبوں پر کام کیا ہے ، جس میں تعلیمی ادارے،  میڈیکل سائنس کے شعبہ جات  ایس یو آئی ٹی کراچی میں دائود اونکالوجی سینٹر، دائود ٹرانسپلانٹ سینٹر اور حنیفہ سلیمان سینٹر کے علاوہ دائود انجینئرنگ کالج، بزنس ایڈمنسٹریشن  کالج  اور ایسے ہی  درجنوں  فلاحی و رفاعی منصوبے ہیں جن سے انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے۔ اس خاندان کی کک بیکس، کمیشن، یا منی لانڈرنگ کی تاریخ نہیں بلکہ یہ وہ خاندان ہے جس نے اس مملکت خداداد کی بنیادوں کو اپنی تجارت، صنعت اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے مضبوط تر بنایا۔ بصد احترام وہ تمام ناقدین جنہیں ان کے ادا کردہ    پانچ لاکھ ڈالر پر اعتراض ہے۔ جو اس مہم کے کیلئے دیئے گئے ، وہ شاید اس بات سے لا علم ہیں کہ کامیابی کی صورت میں فلاح انسانی کے لئے نہ جانے اور کتنے راستے نکل سکتے تھے۔لیکن اب چونکہ یہ سا نحہ ہو گیا ہے  تو ہر کوئی تنقید پر اتر آیا۔ تعصب کی عینک لگا کر چیزوں کو نہ کھنگالا  جائے گا۔ عجیب ماجرا ہے ’’سی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھری۔‘‘ اس واقعے کو  یونان میں کشتی ڈوبنے کے سانحے سے کیوں جوڑا جا رہا ہے۔ معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے والا شخص اپنے کسی شوق کی تکمیل کے لئے اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کر رہا ہے تو یہ  اس کا قانونی حق تھا کہ اپنی کمائی ہوئی جائز دولت کو جس طرح  جب اور جہاں چاہے خرچ کرے قانونی اور معاشرتی طور اس کے استعمال کے حقوق ان کے پاس  تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں یونان کا حادثہ کئی خاندانوں کو زندہ درگور کر گیا۔ بیس ،  بائیس لاکھ کی بھاری رقوم د ینے کے بعد کئی خواب یونان کے پانیوں میں بہہ گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا حادثہ پہلی بار ہوا؟ اور کیا حکومت کے کار پردازوں کو اس کا علم نہیں؟ وفاقی تحقیقاتی ادارہ کیا کر رہا ہے۔کیا انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگ ان کی دسترس سے باہر ہیں  یا زیادہ طاقتور۔آخر اب تک انہیں نکیل کیوں نہیں ڈالی جا سکی۔کیا حکومت ایسے سانحات کے بعد محض رسمی بیانات ہی جاری کرتی رہے گی۔یہ سانحہ حکومت کی بہت سی خامیوں کی طرف  بھی اشارہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے بہتر مستقبل  کے لئے قرض اٹھائے، کسی نے زندگی بھر کی جمع پو نجی لگائی کسی نے مال و متاع لیکن  سب کچھ  جانتے ہوئے  غیر قانونی راستہ اپنایا۔ دنیا  میں سب سے بڑا  قبیلہ انسانیت کا ہے جو مختلف رنگ نسل اور مذاہب و ادیان کے باوجود جذبہ ہمدردی، دکھ درد، بانٹنے کا نام ہے۔ کسی ایک انسان کی جان خواہ بہتر مستقبل کا خواب غیر قانونی طور  پورا کرنے میں جائے یا اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے اپنے ذرائع کی مدد سے پورا کرتے ہوئے جائے۔دونوں میں سے کسی ایک کی بھی جان جانے پر ہمدردی اور افسوس زیب دیتا ہے۔نا کہ بلا وجہ تنقید کے نشتر نکال کر غم سے نڈھال خاندانوں کو کچوکے لگائے جائیں۔ یہ کسی بھی فرد کو زیب نہیں دیتا کہ فرد یا افراد ایسی بے معنی تنقید کر نے کے بعد اپنے آپ کو اخلاقیات کی اعلی منزلوں پر بھی فائز کریں۔ اگر آپ کے پاس پانچ  لاکھ ڈالر یا اس کے مساوی رقم نہیں تو اس میں کسی کا کیا قصور ہے۔اپنی ناتمام آرزوؤں اور نامکمل خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے پر دوسروں کو بر ، بھلا کہہ کر خود کو مہان ثابت کرنے کی کوشش در حقیقت اپنے آپ کو چھوٹا گرداننے کے مترادف ہے۔ سوچو" ہم اتنے سفاک کیوں ہیں۔