آج ذہن میں چند الفاظ جو ہم آواز بھی ہیں اچانک سے آکر کسی کونے میں بیٹھ گئے۔ قارئین! آپ بھی پڑھیے اور لطف اٹھائیے! کہ اگر ان الفاظ کو جوڑا جائے تو موجودہ ملکی حالات کی بہترین عکاسی ہو گی۔ کیئر ٹیکر۔ چیئر میکر۔ الیکشن۔ سلیکشن۔ ووٹ۔ نوٹ۔ عوامی۔ غلامی۔ رسائی۔ رہائی۔ کھیل۔ جیل۔ ڈیل۔ ڈھیل۔ آزادی۔ بربادی۔ انسانیت۔ جمہوریت۔ سیاست۔ عداوت۔ ریاست۔ سیاست۔ رفقائ۔ وزرائ۔ مذاکرات۔ مقبوضات۔ عمل۔نمل۔میثاق۔ اتفاق۔ سوگوار۔ ناگوار۔ بازی۔ ماضی۔ ڈور۔ شور۔ سزا۔ جزا۔فرمان۔ ارمان۔ تقدیر۔ تدبیر۔ فرضی۔ عرضی۔ انتظار۔ بہار۔ امیدوار۔ اعتبار۔ اقتدار۔ ادھیکار۔ خاکسار۔ مردار۔ کاروبار۔ ہدایت کار۔ باربار۔ بیمار۔ سرکار۔ تلوار۔ اوقات۔ ملاقات۔ ذات۔ جماعت۔ انتخابات۔ سوغات۔ معاشیات۔ مواصلات۔ درجات۔ کاغذات۔ زندگی۔ بندگی۔ سپردگی۔ افسردگی۔ نمائندگی۔ پسماندگی۔ سادگی۔ کشادگی۔ سیاست کا لغوی معنی ملکی انتظام چلانا یا حکومت بنانا ہے۔ سیاست کسی سیاسی گروہ کے بنائے گئے ان اصولوں کو کہا جا سکتا ہے جو پالیسی کہلاتی ہے۔ اس بنیادی پالیسی کا مرکز و محور اپنے ملک کی بالادستی اور عوام کے مسائل کے حل کو یقینی بنانا ہے۔ سیاست دراصل ملک کو کامیابی اور ترقی کی راہ پر لے جانے کا نام ہے نا کہ خود کے بینک بیلنس اور کاروبار چمکانے کا۔ جسیے عوام اور خواص کا دیس ہوتا ہے۔ اس طرح سیاست کی ریاست ہوتی ہے۔ اس ریاست میں وہاں کے عوام ان کے حقوق و فرائض، ان کی زبان، ان کی تعلیم، ان کی صحت اور انڈسٹری ریاست کے سر چشمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اْصولاً ہمارے سیاست دانوں کا شعور ہماری قومیت سے کہیں زیادہ وسیع ہونا چاہیئے مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان صرف اور صرف اپنی سیاسی پارٹی کے دائرے ہی میں گھومتے رہتے ہیں۔ ایک پارٹی ہمیشہ بہت سے حروف کو جوڑ جاڑ کر سیاسی نعرے بناتی ہے۔ ایک زمانے میں نعرہ تھا ’’مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان‘‘ پھر اس کے مخالف نعرہ بنا ’’نو ستارے بھائی بھائی بھٹو تیری شامت آئی‘‘ پھر کہیں سے ایک آواز آئی ’’مردِ مومن مردِ حق ضیا الحق ضیا الحق‘‘ ایک اور نعرہ لگا ’’قرض اْتارو ملک سنوارو‘‘ ایک نعرہ تھا ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ پھر 1990کی دہائی میں نعرہ تھا ’’یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘‘ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر۔‘‘ جب بی بی شہید ہوگئیں تو زردری صاحب نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ اس کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ ملہار شروع ہو گیا مگر بارش تھی کہ برسی نہیں! جم ہی گئی۔ کئی سالوں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر کہیں رحم اور محبت کی بارش کے چند قطرے گرے۔ پھر ایک اور نعرہ اْٹھا ’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے‘‘ اب یہ سب کچھ مل ملا کر چْوں چْوں کا مربہ بن چکا ہے۔ موجودہ نگران حکومت تو لگتے ہاتھوں ہر ملک کا دورہ کرنے پر تْلی ہوئی ہے حالانکہ ان کا کام تو صرف الیکشن کروانا مقصود ہے۔تعلیم اوراس سے جڑی تربیت کا محور انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانا ہے۔ برصغیر کے پنجاب میں جب بٹوارہ ہو رہا تھا تو پنجاب سمیت دوسرے حصوں میں تباہی و بربادی کی آگ بھڑک رہی تھی۔ خون کے دریا بہہ رہے تھے۔ یہ سب خرابہ تو ایک آزاد وطن کے لیے تھا۔ مگر اب وطنِ عزیز میں یہ سب کیوں کر ہو رہا ہے؟ تین دفعہ کے سابق وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ قوم کو بد تہذیبی، بد تمیزی، غنڈہ گردی، بد معاشی، جھوٹ اور وغیرہ وغیرہ جیسی چیزیں ساڑھے تین برسوں میں سکھائی گئیں۔ عوام سب سیاست بازوں سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا ملکِ خدا داد کو تماشہ نہ بنائیں۔ نگران وزیر اعظم کاکڑ صاحب کہہ رہے ہیں عام انتخابات شفاف ہوں گے۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ مزید فرمایا دہشت گردی کا مقابلہ ہم سب نے مل کر کرنا ہے۔ حضور! ہر آنے والے جمہوری اور آمر نے یہی نعرہ لگایا مگر دہشت گرد تو جیسے ہمارے اندر ہی ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں۔ بظاہر تو باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی کی وصولیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مگرعوام کے دل یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری ملکی تاریخ میں الیکشن کے وقت کو کھو دینے کی مثالیں جا بجا ملتی ہیں۔ اچھے وقت کا انتظار ہر ایک کی آنکھوں میں بسا ہوتا ہے۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو عوام استعمال کرنے کے لیے پانچ سال انتظار کرتے ہیں مگر آخر میں پتہ چلتا ہے کہ ووٹ تو ڈالتے تھے مگر جمہوریت نہیں آئی۔ مرتے کیا نہ کرتے مترادف وہ اگلے پانچ برس پھر تاکتے رہتے ہیں۔ مگر اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سچ اور جْھوٹ چھپائے نہیں چْھپتا۔ شعور اور سمجھ اب عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہے۔ اچھے لیڈر ہمیشہ عوام کی خاطر سخت اور کٹھن زندگیاں اختیار کرتے ہیں۔ سچ کی خاطر مشکل راہوں پر چلتے ہیں۔ مگر وہ اپنے وطن اور عوام کو زندگی کی کٹھنائیوں سے نکال کر رہتے ہیں۔ سیاست کا رستہ آبلہ پائی کا رستہ ہے۔ اب عوام خالی خولی نعروں سے بہلنے والے نہیں اور نہ ہی کوئی بیانیہ اور نعرے دلوں کو گرما سکتے ہیں۔ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں آسانیاں چاہیں جو خالصتاً ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ملک و قوم کے لیے نہایت اہم ہے کہ ایسے انتخابات ہوں جن پر سب کا اعتماد ہو۔ کسی ایک پارٹی کے لیے سہولتیں مہیا کرنا کسی طور عوام کو قبول نہیں ہو گا۔ ورنہ یہی ہم آواز الفاظ لوگوں کے دلوں میں گھر کیے بیٹھے رہیں گے۔