2 نومبر 1917ء میں برطانوی حکومت کے سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے لارڈ روتھ چائلڈ جو برطانوی یہودی کمیونٹی کا رہنما تھا کے نام ایک مراسلہ لکھا جو 9 نومبر 1917ء کو شائع کیا گیا۔ اس مراسلے میں اس نے تاجِ برطانیہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’’فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی ریاست قائم کرنے کے لیے پوری ہمدردی سے جائزہ لیا جائے گا۔‘‘ یہ مراسلہ برٹش لائبریری میں تاریخی جز کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ آرتھر بالفور کے مطابق اس اعلان میں یہ بتایا گیا تھا کہ سامراج کی طاقت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس کا جی چاہے تو وہ کسی بھی علاقے اور اس کے مکینوں کو ٹھکانے لگا سکتی ہے۔ بالفور نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین جیسے اہم خطے اور صیہونیت جیسی عظیم قوم کا ہو جس کی وعید خود خداوند نے یہودیوں کو دے رکھی ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے سے یہودی مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اس میثاق کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ عثمانی نو آبادیوں کی عرب اتحادی طاقتوں کی حمایت جاری رکھی گئی تو پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر انہیں آزادی دے دی جائے گی۔ مگراس وقت سے لے کر آج تک فلسطین کے باشندوں کی خواہشات کو گھاس تک نہ ڈالی گئی قطع نظر اس بات کے کہ صیہونیت غلط ہے یا درست۔ یہ ایک سوچا سمجھا پالیسی اعلان تھا۔ 1922 کی مردم شمادی میں فلسطین میں مسلمانوں کی کل تعداد پانچ لاکھ نوے ہزار آٹھ سو نوے تھی۔ عرب عیسائی، کچھ انگریز اور چند یورپی باشندے ملا کر تہتر ہزار چوبیس تھے۔ یہودیوں کی کل تعداد وہاں پر تراسی ہزار سات سو چورانوے تھی۔ جس میں یورپی تارکین وطن بھی شامل تھے۔ برطانوی سامراج اور صیہونی ذہنوں میں ایک ایسی سرزمین سمائی تھی جہاں مقامی عرب مسلمان باشندوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ آج کے دور میں جدید ترین دنیا جہاں اے آئی رائج پا چکی ہے افسوس کہ ’’غلام اقوام‘‘ موجود ہیں۔ مزید یہ کہ ان غلاموں کی رائے اور خواہشات کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں حقیر اور بے وقعت جانا جاتا ہے۔ ارضِ فلسطین پر نمائندگی کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی گھات لگائے بیٹھا رہا۔ جس کے نتیجے میں فلسطین میں نسل کْشی کی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر آج بھی باوجود اس کے کہ دنیا بھر میں جنگ کے خلاف احتجاج جاری ہیں فلسطینیوں کی آواز نہیں سنی جا رہی۔ آج وہ عہد ہے جب پل پل اطلاعات اور سرگرمیاں دنیا کے گوشے گوشے میں فوراً پہنچ جاتی ہیں۔ 1967 کی جنگ کے بعد بھی فلسطینیوں کو وطن سے محرومی کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ مگر آج تو حد پار ہو گئی۔ فلسطین اور غزہ میں انسانی نسل کشی ڈھٹائی سے جاری ہے۔ 1948 میں اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کی شق نمبر 13 میں یہ واضح کیا ہے کہ: •ہر مملکت کی حدود کے اندر ہر شخص کو نقل و حرکت اور رہائش کا حق حاصل ہے۔ •ہر شخص کو ملک چھوڑنے اور اپنے ملک واپس آنے کا حق حاصل ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب، نسل، جنس، سیاست یا رنگ و زبان کا ہو۔ •اسے من مانے طریقے سے اپنی قومیت سے محروم اور نہ ہی قومیت ترک کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ •کسی شخص کو زور زبردستی سے اپنے وطن میں داخل ہونے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ نے پہلی مرتبہ 1948 کے دسمبر کے ایک سرد دن میں یہ قرارداد منظور کی تھی کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا کر اپنی زمینوں پر آباد ہو سکتے ہیں۔ آج اقوامِ متحدہ اور جنرل اسمبلی کی آنکھوں اور ضمیر پر طاقت کی چربی چڑھی ہے کہ انہیں ظلم دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ جنوبی غزہ میں اسرائیلی بمباریوں سے یونس خان شہر کی عمارتیں دھواں دھواں ہیں۔ اردن کی ملکہ رانیہ نے بھی سی این این پر نشر ہونے والے انٹر ویو میں کہا کہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کی مذمت نہ کرنے پر مغربی رہنما دوغلے معیار کا شکار ہیں۔ ملکہ رانیہ کے والدین فلسطینی ہیں۔ وہ دنیا کے اس دوہرے معیار پر ششدر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں برابر کے شریک ہیں۔ ملکہ رانیہ نے کہا کہ خاموشی دل کو چیر دینے اور کانوں کو بہراکر دینے والی ہے۔ کیا دانشور، کیا مدرس، کیا اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی امور کے ادارے سب غزہ میں ہوتی ہوئی نسل کْشی پر لب سیے ہوئے ہیں۔ اس وقت غزہ دنیا کی سب سے بڑی عقوبت گاہ بن چکی ہے جس کا قبضہ اسرائیل کے پاس ہے۔ عقوبت گاہوں میں نسلی یا گروہی اعتبار سے جو لوگ حکومت کی مخالفت کرتے ہوں یا سیاسی لحاظ سے مشکوک ہوں انہیں محبوس کیا جاتا ہے۔ پچھلے 75 برسوں سے فلسطینیوں کو مسلسل صیہونی ظلم و ستم اور عالمی طاقتوں کی بے اعتنائیوں کا سامنا ہے۔ 1948 میں جب فلسطین میں اسرائیل قائم ہوا تو مظلوم فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن سے وطن بدر کر دیا گیا۔ وہ مختلف ملکوں جا کر آباد ضرور ہوئے مگر اپنے آپ کو فلسطینی ہی کہتے ہیں۔ بلکہ جو بچے اس کے بعد بھی پیدا ہوئے وہ بھی اپنی ماں باپ کی سنائی ہوئی ظلم کی کہانیوں کو اپنے دلوں میں سموئے ہوئے ہیں جس سے درد رستا رہتا ہے۔ اب تو فلسطینی اپنے حقِ خودارادیت کے لیے اپنا بے گناہ لہو دے کر اپنے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ جبکہ اقوامِ متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی یہ ذمہ داری ہے کہ فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی کروائی جائے۔ آخر میں فلسطینی شاعر توفیق زیاد کی نظم: میں اپنی زندگی کی دردناک کہانی کو نقش کروں گا! اپنی سسکیوں کو نقش کروں گا میں اپنی زمین پر قبضہ باالجبر لکھوں گا اپنے گاؤں کی سرحد اور لوگوں کے منہدم مکانوں اور اکھاڑ دیے گئے درختوں کو نقش کروں گا اپنے آنگن کے زیتونوں کے تنوں پر شروع سے لے کر آخر تک اپنی سسکتی درد ناک کہانی لکھوں گا! (جاری ہے)