مرحوم منو بھائی کی بات یاد آتی ہے جو کہا کرتے تھے کہ دن ان کے منائے جاتے ہیں جن کی شام ہوچکی ہو۔اسی لیے ہم کبھی سیاست ،فیس بک، ٹوئٹر، سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کا دن نہیں مناتے کیونکہ ہم تو پہلے ہی ان میں غرق ہیں۔ہمیں دن منانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہم ماں بولی کا دن مناتے ہیں جسے ہم فراموش کر چکے ہیں۔21 فروری کو ماں بولی کا دن منایا جاتا ہے۔ مادری زبان کی تسلیم شدہ تعریف یہ ہے کہ بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جو زبان سنتا ہے اس کے والدین گھر میں جو زبان بولتے ہیں یہی زبان اس کے کانوں میں پڑتی ہے اور اس کے ذہن کے سلیٹ پر سب سے پہلے نقش ہوتی ہے یہی اس مادری زبان ہے۔ چونکہ دنیا میں آنے کے بعد اس کے ذہن کی صاف سلیٹ پر سب پہلے مادری زبان کے نقش ثبت ہوتے ہیں اس لیے اس زبان سے اسے سب زیادہ اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ اس کی ابتدائی تعلیم اس زبان ہی میں ہونی چاہیے۔ہم نے گھروں میں پنجابی بولنا چھوڑ دی ہے خصوصاً ہم اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ تر اردو میں بات کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب اردو بھی ہمارے بچوں کی مادری زبان ہے کہ پنجاب میں بیشتر لوگ اپنے بچوں کے ساتھ اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔ اردو کو بھی اب ایک قومی زبان سے بڑھ کر مادری زبان کا درجہ حاصل ہونا چاہیے۔لیکن اردو کے ساتھ جو ظلم کر رہے ہیں کوئی زوال آمادہ قوم ہی اپنی شناخت مٹانے کا ظلم خود پرکرسکتی ہے۔ ہمارے سماج پر انگریزی زبان کا بطور ایک برتر زبان کے تسلط قائم ہے۔ہم اپنی شناخت پر شرمندہ، احساس کمتری کی مارے ہوئی قوم ہیں۔گورا یہاں سے چلا گیا مگر براؤن صاحب کی صورت میں اپنی روح یہیں چھوڑ گیا۔ احساس کمتری کے مارے والدین بچوں کو کاٹھے انگریز بنانے پر تلے ہیں اور ان کے ساتھ انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں اجنبیوں کا ایک ریوڑ پیدا کر رہے ہیں ،جو اپنی زمین کی ریت رواج اور اپنے آباؤاجداد کے طور اطوار سے شناسائی نہیں رکھتا۔ والدین دن رات کی کمائی ان بچوں پر خرچ کر کے ایک ایسی اوپری نسل پیدا کر رہے ہیں جن کے لیے وہ بطور والدین خود بھی اوپرے اور اجنبی ہیں۔اوپرا ایک پنجابی زبان کا لفظ ہے اور وہ لوگ اس کے معنی سمجھتے ہیں جو اس لفظ کو جانتے ہیں۔اس کا مطلب صرف اجنبیت نہیں بلکہ اوپرا ہونے میں تہہ در تہہ اجنبیتث چھپی ہوئی ہے۔انگریزی کو بطور زبان ضرور پڑھنا چاہیے اور ہمارے بچوں کو انگریزی زبان آنی چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کی ملک کا تمام نظام اس بدیسی زبان پر چلے۔ ایک زبان جب ہم سے چھوٹ جاتی ہے تو اس زبان سے جڑی ثقافت کلچر رسم ورواج کی ایک رنگا رنگ دنیا ہم سے بچھڑ جاتی ہے۔ میں اپنی والدہ کو یاد کروں تو وہ گجرانوالہ سے تعلق رکھتی تھی اور پنجابی زبان ہی میں بات کرتی تھی ہم لوگ اپنی امی جان کے ساتھ ہمیشہ پنجابی بولتے تھے اور پتہ نہیں کیوں ابو جان کے ساتھ ہم اردو میں بات کرتے تھے۔ شروع سے ہی یہ ہمارا یہی طریقہ کار رہا اور آج تک ہے اور پنجابی سے اردو اور اردو سے پنجابی میں سوئچ ہونے میں کبھی کوئی مشکل درپیش نہیں آئی۔ لیکن اپنی ماں کی بات کروں تو وہ ایک خالص پنجابن تھیں جو اردو بولنے میں خود کو کبھی آرام دہ محسوس نہیں کرتی تھیں۔پنجابی محاورے ان کی روزمرہ کی بات چیت میں کسی گوٹے کناری کی طرح چمکتے دمکتے۔ ہم نے اس وقت ان محاوروں کو کبھی استعمال نہیں کیا لیکن نہ جانے کیسے وہ سارے محاورے خود میرے لاشعور کا حصہ بن گئے اور اب اکثر میری زبان پر آجاتے ہیں۔ان میں ہماری زمین سے جڑی ہوئی دانائی اور حکمت چھپی ہے۔پنجاب میں رہتے ہوئے ہم نے تعلیمی اداروں میں پنجابی نہیں پڑھی اس لیے پنجابی پڑھنے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی تھی پنجاب کے صوفی شعراء کا کلام ہماری آج کی نسل نہیں پڑھ سکتی تو یہ ہماری قوم کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے صوفیانہ پنجابی کلام میں زمین سے جڑی ہوئی جو دانائی اور حکمت ہے اس سے ہم محروم رہے اور ہم سے اگلی نسل کو تو خیر اس نقصان کا بھی احساس نہیں ہوگا۔پنجابی زبان کے ساتھ سب سے زیادہ بے وفائی خود پنجابیوں نے کی۔پاکستان میں بسنے والے پنجابیوں نے اس زبان کو کم تر جانا۔سرائیکی بولنے والوں کو میں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ مخلص دیکھا ہے کہ گھروں اپنے بچوں کے ساتھ سرائیکی بولتے ہیں۔ اسی طرح سندھیوں نے اپنی زبان کو عزت دی ہے۔ دو سندھی ہم زبان جب ملیں تو آپس میں سندھی میں گفتگو کرتے ہیں۔سندھ میں سکولوں کی سطح پر سندھی لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ میری ایک پنجابی دوست تھیں جس کے والد ملازمت کے سلسلے میں سندھ میں رہے اور وہاں اس نے سکول میں سندھی زبان بطور لازمی مضمون کے پڑھی۔ وہ پنجابی کے ساتھ ساتھ سندھی بھی بول اور سمجھ سکتی تھی۔مادری زبان کو ابتدائی برسوں کی تعلیم کا حصہ بنانے کا رواج دنیا کے کئی ملکوں میں ہے۔ فلپائن میں 170 زبانیں موجود ہیں مگر وہاں پر بچوں کے ابتدائی برسوں کی تعلیم میں ان کی مادری زبان ضرور شامل کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ان پر انگریزی اور فلپینو سیکھنا بھی لازم ہوتا ہے لیکن مادری زبان سے ان کو دور نہیں کیا جاتا کیونکہ بچہ سب سے زیادہ بہتر طریقے سے اپنی مادری زبان میں چیزیں سیکھ سکتا ہوں۔پنجاب کے سکولوں میں بھی اردو اور انگریزی کے ساتھ مادری زبان کو بطور لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا چاہیے۔کہ نسل آئندہ اپنی دھرتی اور زمین کی حکمت اور دانائی سے جڑی رہے ۔ اسے اپنی زبانوں اپنے آباؤ اجداد کے طرز زندگی ان کے محاوروں اور ان کے طور طریقوں پر فخر ہو اور وہ ہماری طرح احساس کمتری اور بے شناخت ہونے کے خلا میں معلق نہ رہیں۔