جب کبھی دور پار سے آنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے تو اپنا احساس محرومی اندرہی اندر غدر مچا دیتا ہے ایسی ہی کچھ کیفیت نثار بھائی سے ملاقات کے بعد ہوئی۔ نثار بھائی اور میں کراچی کے ڈی جے کالج میں ہوتے تھے،وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تک ’’ڈی جیرین ‘‘کی فہرست بنائی جائے تو سچ میں پوری کتاب مرتب ہوجائے۔ تب کراچی میں تعلیمی نظام کو گھن لگ رہا تھا لگ نہیں چکا تھا۔کالجوں میں پڑھائی کم اورطلبہ تنظیمیں مخالفین کی ٹھکائی زیادہ لگاتی تھیں لیکن ڈی جے کالج میں فرق یہ تھا کہ یہاں باقاعدہ کلاسز ہوتی تھیں اساتذہ کرام کلاس میں حاضریاں لیتے اور پڑھاتے تھے۔کلاسز کے بعد اکثر ہم اپنے سینئر برادر آصف علی انصاری بھائی کی معیت میں برنس روڈ کے کسی ہوٹل پردوپلیٹ اور بیس روٹیوں کا اجتماعی طعام کرتے ،طریقہ یہ ہوتا کہ دو تین میز جوڑ کر لمبی سے ڈائننگ ٹیبل بنالی جاتی۔ دال سبزی یانہاری منگوا کر ’’گریبی‘‘ کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ سیر ہونے تک جاری رہتا ،ہوٹل والا بیٹھا مرچیں چبا چبا کر دیکھتا رہتا لیکن مستقبل کے معماروں کی ’’محبت‘‘ میں کچھ نہ کہتا ،یہ ملاقاتیں یہ بیٹھکیں دو سال بعد ہی عنقا ہو گئیں ۔ہم جامعہ کراچی جا پہنچے اور نثار بھائی نے کینیڈاکی راہ لی،گذشتہ دنوں فرشتہ صفت بڑے بھائی وقار بھائی کی وڈیو کال آئی اور انہوں نے اپنے بعد سیل فون پر ایک فربہی مائل شخص کی صورت دکھائی ،ذہن نے تین دہائیاں پیچھے زقند لگائی اور میں نے اس ادھیڑ عمر شخص میں پتلے دبلے انجینئر نثار بھائی کوکھوج نکالا۔ نثار بھائی آجکل پاکستان آئے ہوئے ہیں کہنے لگے والدین یہیں ہیں ۔سال دو سال میں پاکستان آنا پڑتا ہے اس ملاقا ت کے بیچ میں تیس برس حائل تھے ۔کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن بیان کرنے کے لئے بھی تو وقت چاہئے ۔نثار بھائی سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں کینیڈا کے سفاک موسم سے ناگوار ٹیکس سسٹم اور شفیق ریاست تک بہت سی باتیں ہوئیں ،نثار بھائی بتانے لگے بحیثیت کینیڈین شہری کے انہیں گنتی کے چند ہی ملکوں میں ویزے کی ضرورت پڑتی ہو تو پڑتی ہو ورنہ بس کینیڈا کا پاسپورٹ ہی کافی ہوتا ہے ،کہنے لگے کہ کینیڈامیں جو کماتے ہیں اسکا سیدھا سیدھا تیس فیصد تو حکومت ٹیکس لے لیتی ہے سچ میں کھلتا ہے لیکن جب بندہ ساٹھ برس کا ہوکر ریٹائرمنٹ لیتا ہے تو یہی ٹیکس خوشگوارمدد کا سبب بنتاہے کینیڈا میں ریٹائرمنٹ کا تصور کسی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کا نہیں ،وہاں کوئی بھی شہری ساٹھ برس کا ہونے کے بعد حکومت کی ذمہ داری بن جاتا ہے اور اسے ریاست کی طرف سے ماہانہ پنشن ملنے لگتی ہے یہ سب اپنی جگہ لیکن کینیڈا اپنے شہریوں کی بیرون ملک کا جس طرح خیال رکھتاہے وہ حیران کن ہے کوئی بھی کینیڈین شہری دنیا کے کسی بھی گوشے میں کسی بھی مصیبت میں مبتلاتو یہ ریاست کسی شفیق باپ کی طرح اسکے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے اور اسکا نظام خودکار انداز میں اسکی مدد کوآجاتاہے۔ کینیڈا توخیر ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ جانے دیجئے مجھے ترکی کے فخر بھائی سے دو برس قبل ہونے والی ملاقات نہیں بھولتی ،فخر لالہ پشاور کے قریب کسی علاقے کا پشتون نوجوان ہے ،ایک سسرال یہاں اور دوسرا ترکی میں ہے ،وہ ترکی ہی میں رہتے ہیں اور ترک شہریت اختیار کرچکے ہیں کورونا کے دنوں میں پاکستان آئے اور کوروناکی وجہ سے لگنے والی پابندیوں نے انہیںیہاں روک لیا،فضائی رابطے منقطع ہوچکے تھے۔ ان ہی دنوں فخر بھائی نے مجھے کال کی اور کہا کہ میں آپ کے گھرآرہا ہوں میں نے اسے مذاق سمجھا لیکن فخر بھائی چہرے پر مسکان سجائے میرے غریب خانے پر موجود تھے بتانے لگے ،ترک سفارت خانے نے رابطہ کیا تھا کہ پاکستان میں موجود ترکوں کے لئے ایک خصوصی پرواز کا انتظام کیا جارہا ہے آپ نے چلنا ہے تو ٹکٹ لے لیجئے ،وہ ٹکٹ لینے اور دیگر امور نمٹانے کے لئے ہی اسلام آباد آئے تھے مجھے حیرت تھی کہ اسلام آباد سے پشاور کا ذمینی رابطہ منقطع ہے وہ کیسے ساری بندشیں توڑتے ہوئے ایک کاز میں دو کزنز کو لے کر آگئے میرے پوچھنے پر مسکراتے ہوئے ایک خط سامنے کر دیا یہ ترک سفارت خانے کا لکھا ہوا خط تھا کہ حامل رقعہ ہذا ترک شہری ہے اور یہ ترک سفارت خانے کی دعوت پر اسلام آباد آرہا ہے یہی نہیں انہیں سفارت خانے سے ایک ترک افسر نے فون کرکے کہا کہ اگر راستے میں کوئی مسئلہ ہو تو اس نمبر پر اطلاع دیجئے گا،یہ سب کچھ اس ’’شہری‘‘ کے لئے تھا جو جدی پشتی ترک نہ تھا جسکی ترکی بھی کسی پشتون بھائی کی گلابی اردو جیسی تھی اور اس نے وہاں آٹھ دس کروڑ لیرا کی سرمایہ کاری بھی نہیں کررکھی تھی لیکن ترک ریاست کا نظام اسکے لئے متحرک تھا۔ اب آجایئے یوکرائن اور روس کے درمیان جاری جنگ میں پھنسے پانچ ہزار پاکستانیوں پر،یوکرائن کے میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم پاکستانی طلباء کی ڈل ڈل کرتی آنکھوں کے ساتھ وڈیو پیغامات کس نے نہیں دیکھے ؟ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں ،وہ رو رو کر کہہ رہیں کہ ہم پاکستان کے بیٹے بیٹیاں ہیں یہ ملک ہماری ماں دھرتی ہے یہ اس مشکل وقت میں کیسے تنہا چھوڑ سکتی ہے ؟ اسکا جواب یوکرائن میں ہمارے سفارتخانے نے یوکرائن کے دارالحکومت سے قومی پرچم سمیٹ کر محفوظ علاقے میں نقل مکانی کرکے دے دیا ،ان بچوں کی بات سنیں لہو کھول اٹھتا ہے لیکن سفارت خانے کی طرف سے کہا گیا سب ٹھیک ہے آپ بے فکری سے تعلیم پر توجہ دیں ۔اور جب حالات خراب ہوئے تو کیسا سفیر ،کیسا سفارتی عملہ اور کیسا سفار ت خانہ۔یوکرائن میں موجود سفیر صاحب نے اپنے عملے کو محفوظ کر کے اپنا فرض پورا کرلیا سفارت خانے نے ان طلباء کے لئے جس ایک بس کا انتظام کیا تھا کہ وہ انہیں پولینڈ پہنچا دے گی وہ بھی تیس کلومیٹر پیچھے چھور کر واپس مڑ گئی کہ آگے روڈ جام ہے۔ بس والے نے طلباء کو اتار کر یو ٹرن لیا اور واپس چلا گیا حیران پریشان طلباء کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔بس والے نے غلط نہیں کیا تھا لیکن ان طلباء کے ساتھ کوئی سفارت کار کیوں نہیں اترا؟؟سچ یہی ہے کہ دنیامیںپاکستانی سفارتخانے سفارتی عملے کی بھاری تنخواہیں اورشکایات ،اسکینڈلوں کاماخذ ہیں لیکن یوکرائن میں تو حد ہی ہوگئی وزارت خارجہ کی اہلیت کی قلعی کھل گئی ،سوچ رہا ہوں کہ ان بچوں نے اگروطن واپسی پر طیارے سے اترتے ہوئے یہی سوال کرلیا کہ ریاست ایسی ہوتی ہے تو ہمارے پاس کوئی جواب ہوگا؟