فرانس کے معروف ناول نگار مارسل پینگول نے لوگوں کے حال سے خوش نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ لوگ اپنے آج کو گزرے کل سے بدتر سمجھتے ہیں ان کے خیال میں اسی لئے آنے والے کل میں بہتری نہیں آتی ۔ امریکی شاعر کارل سینڈ برگ ماضی کو راکھ کا ڈھیر کہتے ہوئے گزرے کل کے بجائے آج میں جینے کا مشورہ دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ صرف ماضی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے ہم خوشحال مستقبل میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ہم پاکستانیوں کا المیہ بھی شاید یہی ہے کہ ہم ماضی کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں ہر کوئی 50سال پہلے کی زندگی چاہتا ہے۔میری عمر کے لوگ آج کے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں جو چینی آج 100روپے کلو میں مل رہی ہے 9روپے میں بکتی تھی۔سونا جو آج ایک لاکھ 20ہزار میں فروخت ہو رہا ہے ضیاء الحق کے دور میں 2ہزار 23روپے کا تھا۔پاس بیٹھے دادا دادی جب آج کے نوجوانوں کو یہ بتا کر اپنے گرد جمع کر لیتے ہیں کہ ضیاء الحق کا دور تو کسی عذاب سے کم نہ تھا ان کے زمانے میں جب پاکستان بنا تو چینی 60پیسے فی کلو سونا 57روپے تولہ بیف 50پیسے اور چھوٹا گوشت سوا روپے میں سیر لایا کرتے تھے۔ خالص دودھ 40پیسے فی سیر اور دیسی گھی ڈھائی روپے میں فروخت ہوتا تھا تو بچوں کی آنکھیں روشن اور منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں اور وہ دادا دادی کے زمانے کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ بزرگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہر وقت موبائل میں گم رہنے والے ان کی بات انہماک سے سن رہے ہیں تو ان کو کچھ لمحے اپنے پاس بٹھانے کے لئے ماضی کی پٹاری کھول دیتے ہیں۔ بچوں کو عالمانہ انداز میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جو مہنگائی کا جن ہے یہ تو پاکستان بننے کے بعد ہی بوتل سے باہر نکلا ہے ورنہ ان کے اماں ابا کے زمانے میں کیا کیا بہاریں ہوا کرتی تھیں۔بچوں کو مہنگائی کا فلسفہ سمجھایا جاتا ہے کہ 60پیسے چینی لیاقت علی خان کے دور تک رہی پھر وزیر اعظم بدلے گئے اور چینی 75پیسے فی سیر ہو گئی جنرل ایوب آیا تو 1.75میں بکنے لگی چینی کو آگ تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لگی جو 6روپے میں بھی نہ ملتی تھی۔ بچے ماضی کو گلاب رنگ دیکھتے ہیں یا پھر سنہری رنگ کے شیشے، جس میں ماضی کی راکھ سونے کے ڈھیر لگتی ہے۔وہ دادا دادی کے سنہرے دور کا موازنہ آج عمران خان اور عثمان بزدار کے عہد سے کرتے ہیں اور دادا دادی کے ساتھ حکومت کو کوستے ہوئے ماضی میں جینے کی خواہش کرتے اورہم سے سوال کرتے ہیں تو شاید ہمارے پاس اماں ابا کی ماضی کی کہانی کا جواب خورشید رضوی کے شعر کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ نسخۂ مرہم اکسیر بتانے والے تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے ماضی کو مرہم اکسیر بتانے والے نجانے کیوں ماضی کے زخم سینے میں چھپا لیتے ہیں۔ یقیناً میری عمر کے لوگوں کو 60پیسے چینی کے زمانے کے حالات کا کچھ زیادہ تو پتا نہیں ہو گا مگر پھر بھی اماں ابا کے بڑوں سے تو سن رکھا ہے میرے گائوں میں ایک بزرگ با باغلام محمد ہوا کرتے تھے ہمارے گائوں کی سب سے بڑی کوٹھی جوکبھی چار کلو میٹر سے نظر آجایا کرتی تھی۔ ایک سکھ انجینئر نے 1922ء تعمیر کروائی تھی۔ بابا غلام محمد بتاتے تھے کہ وہ چار آنے دیہاڑی پر یہاں مزدوری کیا کرتے تھے۔میرے جب والد جنرل ایوب کے دور میں گائوں سے نوکری کے لئے لاہور آئے تو چینی ایک روپے 75پیسے ملا کرتی تھی مگر ان کو مہینے بعد 60روپے تنخواہ ملتی تھی ہمارے استاد ڈاکٹر عاصم صحرائی 70ء کی دہائی میں قصور میں نفسیات کے لیکچرار بھرتی ہوئے تو ان کو 17ویں سکیل میں 450روپے پہلی تنخواہ ملی تھی۔ اپنی بات کریں تو راقم بچپن کا بڑا حصہ اپنے ننھیال میں گزرا ۔ 74ء میں شاید پہلی بار سکول گیا یہ گائوں بلوچستان یا تھرپار کے صحرائوں میں نہیں بلکہ شیخو پورہ کے ساتھ منڈی فاروق آباد سے محض چار کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔75ء تک اس گائوں کی حالت یہ تھی کہ پورے گائوں میں صرف ایک عمارت پکی اینٹوں سے بنی تھی وہ گائوں کی واحد مسجد تھی ۔پورے گائوں میں بجلی گیس پانی تو کیا سودا سلف خریدنے کے لئے دکان تک نہ تھی۔سال بعد ساتھ والے گائوں دولت پور میں ایک درگاہ پر میلہ لگتا تو لوگوں کو روپیہ پیسہ خرچ کرنے کا موقع ملتا۔ کسان گندم 18روپے فروخت کرتا مگر ان اٹھارہ روپے کو خرچ کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ سبزی پھل لوگ اپنے کھیتوںمیں اگاتے۔رمضان میں شکر کا شربت برف کے بغیر بنتا۔ آج اس گائوں میں ایسی ترقی آئی کہ ہر گھر میں فریج اور فریج فروٹ اور کیک سے بھرے پڑے ہیں۔ چار آنے دیہاڑی لینے والا مزدور آج 800روپے کما کر بھی فاقوں مرنے پرمجبور ہے۔ اس کے گھر میں فریج واشنگ مشین چلنے کے بعد جو بجلی کا بل آتا ہے وہ 800روپے نگل جاتا ہے اور اس کے حصے میں فاقے آتے ہیں۔ یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ مرا تعلیم صحت اور روزگار کی فراہمی کی ضمانت آئین پاکستان میں شہریوں کو فراہم کی گئی ہے۔ ناسٹلجیا کے شکار پاکستانی اگر عمران خان اور عثمان بزدار سے تعلیم صحت اور روزگار کے یکساں مواقع کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت تمام شہریوں کو سرکاری نوکری فراہم نہیں کر سکتی البتہ روزگار کے مواقع فراہم کر نے حکومت کی ذمہ داری ہے۔کم از کم اجرت کو حقیقت پسندانہ بنانا بھی حکومت کا فرض ہے۔مگر اس کم از کم کی چادردیکھ کر پائوں پھیلانا پاکستانیوں کی بھی کا کام ہے ۔حکومت کے پاس تو دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ خود انحصاری کے لئے کفایت شعاری اپنائے یا ماضی کے حکمرانوں کی طرح پاکستان کے اثاثے رہن رکھ کر قرض لے اور ڈالر اور اشیاء ضروریہ سستی کر کے عوام کو غالب کے اس خیال میں مست رکھے: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک