عالمی بینک نے بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو پاکستان میں پچاس سال کے دوران ریکارڈ مہنگائی کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔یہ رپورٹ پاکستان میں مختلف حکومتوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرنے کے ایک ہی ناکام ماڈل کو آزمانے کے نقصان بتاتی ہے۔یہ رپورٹ ان خدشات کی تصدیق کرتی ہے کہ بالائی طبقات نے ٹیکس وصولیوں کا سارا بوجھ نچلے اور کم آمدن والے طبقات پر منتقل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی قانون سازی اور فیصلہ ساز اداروں کی صلاحیت کو استعمال کیا۔اس پالیسی نے توانائی کی قیمتیں بڑھائیں جن سے اشیا کی پیداواری لاگت بڑھی، برآمدات کم ہوئیں اور صنعتیں بند ہوئیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 26 فیصد رہنے کا امکان ہے اور 2025 میں 15 فیصد جب کہ 2026 میں یہ شرح11.5 فیصد رہے گی۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974 کے بعد سب سے زیاد رہی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ کردیا۔عالمی بینک نے پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ قراردیا ہے۔عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی قیمتیں 50 فیصد سے بڑھ گئیں اور توانائی کی افراط زر 50.6 فیصد رہی جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 40.6 فیصد تھی، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اوسط مہنگائی28.8 فیصد رہی جوگزشتہ سال اسی عرصے میں 25 فیصد تھی۔روپے کی قدر میں استحکام، مقامی سطح پر فصلوں کی پیداوار میں اضافے اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں پردباو میں کمی کے باوجود پاکستان میں مہنگائی بڑھی۔رواں مالی سال پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح 26 فیصد رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ مالی سال میں 29.2 فیصد تھی تاہم آئندہ مالی سال 2025 میں اوسط مہنگائی 15 فیصد اور مالی سال 2026 میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہوکر 11.5 فیصد تک رہنے کا امکان بتایا جا رہاہے۔سیاسی عدم استحکام اور حکومتی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہتری کے امکانات معدوم ہو سکتے ہیں۔معاشی ماہرین کا کہنا ہیکہ ایک طرف برآمد کنندگان کو دبایا جارہا ہے اور دوسری طرف گیس و بجلی کی قیمتیں بڑھا کر صنعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پچھلے دو سال میں 90 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں، غربت 35 فیصد سے بڑھ کر 45 فیصد ہوگئی ہے اور 11 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ پاکستان میں بے روزگار اور بیکار نوجوانوں کی تعداد 2 کروڑ ہو چکی ہے جو کسی بم سے کم نہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی شعبے پر ٹیکسوں کا 5 گنا زائد بوجھ ہے، حکومت نے ایسے 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے جو اس نے نہیں لیے جبکہ پاور سیکٹر کو پیداواری صلاحیت کی مد 8 ارب سالانہ دیے جا رہے ہیں۔ عام آدمی سے غلط بیانی حکومتوں کا وطیرہ بن چکی ہے،مدت سے بتایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ کا مطالبہ کرتے ہیں، سچ یہ ہے کہ یہ ادارے کبھی اس نوع کی ظالمانہ پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے بلکہ یہ قرض دیتے وقت مقروض ریاست کے حکام سے پوچھتے ہیں کہ وہ قرض ادائیگی کے وسائل کیسے پیدا کریں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کا حصہ ہے جس کی وجہ سے گزشتہ مہینوں بجلی کی قیمت میں متعدد بار اضافہ ہوا اور اب گیس کی قیمت میں اضافہ بھی قرض کی شرائط کی وجہ سے بتایا جا رہاہے۔حکومت کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے کنٹری رپورٹ میں پاکستان کو گیس کی قیمت بڑھانے کا کہا گیا تھا۔حکومتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کرتی ہیں اور ان کے اخراجات ہیں جو انھوں نے گیس سپلائی کے لیے کیے ہیں، اسی طرح انھیں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل سے گیس بھی زیادہ قیمت پر مل رہی ہے تو ایسی صورت میں انھیں اپنی ریونیو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمت بڑھانا پڑے گی۔ کچھ عرصہ پہلے جاری رپورٹ میںگزشتہ تین سال کے دوران صارفین سے 1410 ارب روپے ٹیکس وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔دستاویز کے مطابق 2 سال میں بجلی بلز پر ٹیکس وصولی کی شرح دْگنی ہوگئی ہے۔ 2021 میں بجلی صارفین سے 345 ارب سے زائد ٹیکس وصولیاں کی گئیں جب کہ 2022 میں اس مد میں 461 ارب اور 2023 میں 603 ارب روپے سے زائد ٹیکسز لیے گئے۔دستاویزات کیمطابق ٹیکس وصولی بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ ہے جب کہ پی ٹی وی فیس کی مد میں 25 ارب 70کروڑ،ا نکم ٹیکس کی مد میں 180 ارب سے زائد وصولیاں ہوئیں اور صارفین نے اضافی ٹیکس کی مد میں 89 ارب 69 کروڑ روپے ادا کیے۔ بالائی طبقات سے ٹیکس وصولی کا نظام جان بوجھ کر غیر فعال رکھا جا رہا ہے،اسی لئے براہ راست کی بجائے بالواسطہ ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں۔بجلی اور گیس کے علاوہ پٹرول کی فی لٹر قیمت میں ساٹھ روپے کی لیوی دنیا کے کسی ملک میں نہیں لی جاتی،یہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔سچ یہ ہے کہ یہ ٹیکس کا ماڈل نا صرف ناکام ہوا ہے بلکہ اس کی وجہ سے معیشت ایک مستقل زوال کا شکار ہو چکی ہے لہذا اس ٹیکس ماڈل کو جلد سے جلد خیر باد کہنا ہوگا۔