وزیر اعلیٰ پنجاب کے سینسر(Sensor)ـ بہت تیز ہیں ، کچھ نہ کچھ نیا اور بہتر کرنے کا جذبہ اور داعیہ تو اُن میں بدرجہ اَتَم ہے ہی ، لیکن اس کے ساتھ ان کا کمپیوٹر انہیں ہر وقت یہ بھی نشاندھی کرتارہتا ہے کہ کہاں کیا چیز کم ہے اور کہاںکیا زائد از ضرورت، کس شے کو کس جگہ پر ہونا چاہیے اور کس جگہ پر نہیں ۔ محض روایت سے بند ھے رہنے والے نہیں،یہ قبیلہ جو تقریباً ہزار سال قبل بر صغیر میں وارد ہوا، اس کا "جنیٹک پرابلم" ہی یہ ہے کہ یہ "سٹیس کو"کا عادی نہیں ۔ اس قبیلے کے چیف نے تیسرے خلیفہ کے انتخاب کے موقع پرایک استفسار کے جواب میں کہا تھا کہ قرآن و سنت کے بعد مَیں بھی اپنے فیصلے کرنے میں اسی طرح آزاد ہوں گا ، جس طرح مجھ سے پہلے دوخلفاء ۔بہرحال،9نومبر کو حضرت اقبال ؒ کے 146 ویں یومِ ولادت کی سالانہ تقریب ، ان کے مزار پر بر پاہوئی ، وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی پوری کابینہ کے ساتھ مزارِ اقبالؒ پر حاضر تھے اور رینجرز و بحریہ کا چاک و چوبنددستہ سلامی کے لیے موجود تھا ، روایت اور پروٹوکول کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی مزار کے شرقی دروازے سے رسمی طور پر داخل ہو کر "Wreath" یعنی پھولوں کا ہار ، قبر کے چبوترے کے ساتھ سٹینڈپر آویزاں کردیا،جہاں مہمانِ خصوصی کے دائیں بائیں ، سلامی کے لیے دوگارڈاور دُعا و فاتحہ کے لیے خطیب صاحب کے کھڑے ہونے کی بمشکل گنجائش تھی ، جبکہ وزیرا علیٰ کے ساتھ کابینہ کے ممبران اور دیگر افسران --- جس کو جہاں جگہ ملی سماگیا ، یہیں، یعنی قبر کی پشت کی طرف ہی سے واپسی ہوئی ۔ زیارتِ قبور کا مسنون طریقہ، جو فتاوٰی شامی، رَد المختار اور دیگر فتاوٰی جات میں درج ہے کہ مزاراتِ شریفہ پر حاضری کے لیے یائنتی یعنی قدموں کی طرف سے جائیں اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ یعنی چہرے کی طرف کھڑے ہو کر متوسط آواز میں بادب سلام پیش اور ایصال ثواب کا اہتمام کریں ۔ بہرحال مزار اقبال ؒ کی مرکزی تقریب اوریہ رسم اسی انداز سے گزشتہ برسوں اور عشروں سے جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہتی ،یہاں تک کہ محسن نقوی کا عہدآگیا اور بلاشبہ یہ کریڈٹ ہے ،وزیر اعلیٰ موصوف کا کہ وہ اس تقریب کے بعد مزارِ اقبالؒ پر رُکے--- بلکہ دیر تک رُکے اور مزارمیں داخل ہونے سے لیکر ، اس کے حجرے کی وسعت اور پھر اس کی اَپ گریڈیشن اور ریسٹوریشن کے امکان کا جائزہ اور احکام کا صدور ہوا ، پی سی ۔Iبن رہا ہے ۔ آئندہ دو روز تک پراجیکٹ کی تفصیل طے ہو جائے گی اور معاملہ مجاز اتھارٹی کو منظوری کے لیے پیش ہوجائے گا،اور یوں تقریباً پوںصدی کے بعد ، اس مزار کی تزئین و مرمت کا اہتمام روبہ عمل ہوگا، جس کے بارے میں حضرت اقبالؒ خود ہی فرما گئے تھے : زیارت گاہِ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِالوندی اب مجھ سے یہ نہ پوچھئے گا کہ " رازِ الوندی " سے کیا مراد ہے؟ حضرت اقبالؒ کی وفات21 اپریل1938ء --- جبکہ صبح کے 5 بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے، فجر کی اذانیں فضائوں میں گونج رہی تھیں ، اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے " ہائے " کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے انہیں فوراً شانوں سے اپنے بازوئوں میں تھام لیا ۔ فرمایا:دل میں شدید درد ہے ، قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کہہ سکے ، انہوں نے "اللہ "کہا اور اُن کا سر ایک طرف ڈھلک گیا اور 5 بج کر 14 منٹ پر صبح کی اذانوں کی صدائوں میں یہ جان ، جانِ آفریں کے سپرد ہوگئی ۔ سب سے اہم اور فوری مسئلہ حضرت علامہ کی تدفین تھا، اقبال کے دستِ راست چوہدری محمد حسین کی تجویز یہ تھی کہ انہیں بادشاہی مسجد کے کسی حجرہ میں دفن کیا جائے ۔ چنانچہ میاں امیر الدین ، سیّد محسن شاہ ، خلیفہ شجاع الدین ، مولانا غلام مرشد ، غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک بادشاہی مسجد گئے اور حجروں کے معائنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسجد کے جنوب مشرقی مینار کے زیر سایہ سیڑھیوں کی بائیں جانب خالی قطعہ زمین کو مدفن کے طور پر استعمال کیا جائے ، جس کے لیے حکومت ہند کے متعلقہ محکمہ ، جس کا ہیڈ آفس دہلی میں تھا ، کی منظوری لازم تھی ، اس ضمن میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات سے رابطہ کیا گیا ، جوان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے کلکتہ میں تھے ،سر سکندر حیات نے مجوزہ مقام تدفین سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈکی تجویز پیش کی ، مجوزہ مقام پر یونینسٹ پارٹی کے ہندو اور سکھ وزارا معترض ہوئے ، البتہ مسلم زعما اس سے متفق تھے ۔ مسجد نیلا گنبد کے سامنے خالی قطعہ اراضی بھی زیر غور ہوا۔ تاہم اقبالؒ کے خاص احباب نے ان تجاویز کو کوئی خاص وزن نہ دیا اور وہ اپنی اوّلین جگہ پر ہی قائم رہے اور دریں اثناء انہی میں سے پانچ شخصیات پر مشتمل ایک وفد نے پنجاب کے گورنر سر ہنری کریک سے ملاقات کی ، جس نے دوپہر تک مجوزہ قطعہ اراضی کے لیے دہلی سے اجازت کا اہتمام کر کے شام 4بجے تک، تمام کاغذی کارروائی مکمل کروادی ۔ 5پانچ بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اُٹھا، فرزندانِ اسلام کا ایک انبوہِ کثیر ، باچشمِ گریاں ، کلمۂ شہادت کا ورد کرتے ہوئے ہمراہ تھا ۔ جنازہ قلعہ گجر سنگھ اور فلیمنگ روڈ سے ، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی وسیع و عریض گرائونڈ میں پہنچا، نمازِ جنازہ کی ادائیگی ہوئی جس کے بعد یہ کارواں بادشاہی مسجد پہنچا ، 8 بجے شب ، بادشاہی مسجد کے صحن میں مولانا غلام مرشد نے نماز ِ جنازہ پڑھائی ، جس میں تقریباً 60 ہزار افراد نے شرکت کی ۔ ازاں بعد میت کو مقامِ تدفین پر پہنچا دیا گیا ۔ اقبالؒ کے برادرِ اکبر شیخ عطا محمد اور چند دیگر اعزہ، جو سیالکوٹ سے تقریبا ً ساڑھے نو بجے وہاں پہنچے ،نے آخری بار اقبالؒ کے چہرے کی زیارت کی ۔ پونے دس بجے اس عظیم داعی احیائے اسلام اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کو تابوت میں رکھ کر سپردِ خاک کردیا گیا ۔ مزارِ اقبالؒ کی تعمیر کے لیے 1938ء میں ہی چوہدری محمد حسین کی زیرِ صدارت مرکزی مجلس اقبال قائم ہوئی ۔ 8 سال تک مزار کی تعمیر کا آغاز نہ ہوسکا ۔ اس عرصے میں کچی قبرپر ایک پختہ تعویز ہی اقبال کا مدفن تھا ۔ 1946ء میں مزار کی تعمیر کا آغاز ہوااور 4 سال کے عرصے میں، یعنی 1950ء کو اس کی تکمیل ہوگئی، جس کے لیے کسی سرکاری اور حکومتی امداد کو در خورِ اعتنانہ سمجھا گیا ۔ مزار کا ابتدائی ڈیزائن حکومت افغانستان نے اپنے اطالوی ماہر ِ تعمیرات سے بنوایا ، جو مرکزی مجلسِ اقبال نے اس بناء پر منظور نہ کیا کہ صرف اندازِ تعمیر ہی غیر اسلامی نہ تھا بلکہ اطالوی کیتھولک روایت کی اس میں جھلک تھی اور تربت پر اقبال کے مجسمے کو ہاتھ باندھے ہوئے بنا یاگیا تھا ، بعد ازاں حیدر آباد دکن کے نواب زین یار جنگ نے خاکہ تیار کیا ، مگر اس خاکے میں نسوانی حدتک نفاست تھی اور مزار کے اندر تربت یوں دیکھائی دیتی تھی ، جیسے کسی منقش سنہری پنجرے میں بلبل قید ہو ۔ چوہدری محمد حسین نے نواب زین یار جنگ کو لاہور بلوایا اور انہیں ساتھ لے کر موقعہ پر گئے۔ پھر بادشاہی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر فرمایا : دیکھئے، نواب صاحب!ایک طرف مسجد ہے جو مسلمانوں کی دینی طاقت کی مظہر اور دوسری طرف قلعہ ہے جو اُن کی دنیوی قوت کا امین ، ان تعمیرات کے درمیان مزار اقبال تبھی بھلا لگے گا جب وہ سادگی اور مضبوطی کی خصوصیات کا حامل ہو ۔نیز اقبال کی شخصیت میں بھی تو یہی خصوصیات نمایاں تھیں ، اس پر نواب زین یا رجنگ نے موجودہ مزار کا خاکہ تیار کیا ۔ تعمیر کا ٹھیکہ چودھری فتح محمد نے لیا ۔ محمد سلیمان چیف انجینئر اور میاں بشیر احمد ا وور سیئر نے بلامعاضہ رہنمائی اور نگرانی کی خدمات انجام دیں ۔ تعمیر میں استعمال ہونے والا سنگ سرخ اور سنگِ مرمرریاست دھولپور(انڈیا)سے حاصل کیا گیا اور اس پتھر کو دہلی ، آگرہ اور مکرانہ کے کاریگروں نے تراشا ۔ مزار کے اند ر کندہ قرآنی آیات اور اشعارِ اقبال، چودھری محمد حسین کا انتخاب ہیں ۔آیات الٰہی کی خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی نے کی ہے اور اشعارِ اقبال کی ابن پرویں رقم نے ۔ لوح مزار، چبوترے اور تعویذ کے لیے سنگ لا جورد حکومت افغانستان کی طرف سے ہدیہ، جبکہ لوح مزار کی عبارتیں افغانستان ہی سے کندہ شدہ تھیں۔ 26 اپریل 1962ء بذریعہ نوٹیفکیشن محکمہ اوقاف نے حضرت اقبالؒ کے مزار کو اپنی تحویل میں لیا ۔ مزار کی تاریخی حیثیت کی بنا پر اس عمارت کی دیکھ بھال اور سائٹیفک کلیننگ محکمہ آثار قدیمہ کے ذمہ ہے، جبکہ اس عمارت کی سیکیورٹی کے تمام امور پنجاب رینجرز انجام دے رہی ہے ۔