سلطان منصور اصغر راجہ کی مرقد پہ نور برستا ہے، تاابدبرستا رہے گا ۔وجیہہ،فیاض،مہمان نوازاور لطیف المزاج دوست وہاں چلا گیا،جہاں سے واپسی ناممکن۔پروردگار نے زندگی آزمائش کے لیے بنائی ہے۔صحافت میں ان سے تعلق قائم ہوا،جو یارانے میں تبدیل ہو گیا ۔ان کے ساتھ شب روز بیتے ۔محفلیں جمیں۔بڑے ہی صاحب مطالعہ تھے ۔ افغانستان ، عراق،شام و حجاز پر گہری نظر رکھتے تھے۔دین کی بڑی غیرت رکھتے،دین پر کسی جانب سے بھی حملہ ہوتا تو یہ بپھر جاتے ،مگر تکفیر میں عجلت نہ کرتے ۔حاکمانہ رعب دبدبے سے کورے تھے ،نیک نامی سے رہے ،دوستوں میںبھی ،عوام میں بھی اوراہل خانہ کے ساتھ بھی ۔سب سے عاجزی و انکساری سے جھک کر ملتے ،کنبے والوں اوربستی والوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ۔مگرجمال و جلال کے ساتھ زندگی بسر کی۔ ان کے انتقال کی اچانک خبر سن کر زمین پیروں تلے سرک گئی ۔ان کے دنیا سے اٹھ جانے کا دکھ صرف خاندان کو ہی نہیں دوستوں کو بھی ہے ۔دنیا باکمال مخلصوں سے خالی ہوتی جا رہی۔ہر موت اپنے ساتھ دکھ لاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی مگر اٹھتے ہیں کہ دنیا خالی نظر آنے لگتی ہے۔منصور راجہ کے چلے جانے سے دوستوں میں ایک خلا پیدا ہوا ہے ۔جوکبھی پورا نہ ہو سکے گا۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں اختلاف کیا۔ انبیاء ؑکے بھیجے جانے پر بھی۔ ان کی عصمت و پاکبازی پر بھی۔دنیا میں صرف ایک چیز ہے، جس پر تمام انسانوں کا اتفاق ہے، وہ موت ہے۔ مرنا یقینی ہے۔ کب مرنا ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ سو فیصد یقین تو ایک لمحے کا بھی نہیں ہے۔ جو سانس اندر گیا ،وہ باہر نہ آئے، یہی موت ہے۔ جو دل پیدائش سے اب تک دھڑک رہا ہے، وہ رک جائے، یہی موت ہے اور یہ اتفاق جبری ہے۔ سب انسان اس اتفاق پر مجبور ہیں۔جانے والا چلا جاتا ہے مگر پیچھے رہ جانے والوں کی زندگیاں، نوحے بن جاتی ہیں، کون ان ماؤں ،جوان بیویوں اور معصوم بچوںکے آنسو پونچھتا ہے؟ والدین جوان بیٹوں کی قبروں کا تعویز ہو کے رہ جاتے ہیں۔انکا دکھ کون بانٹتاہے ؟ منصور راجہ کی وفات اپنے ساتھ بہت گہری اداسی لائی ہے۔ شام کے بغیر شام۔ سہ پہر کو جیسے سورج ڈوب جائے۔ ہر چیز فنا ہوتی ہے۔ ہر آدمی نے ایک دن مٹی کی چادر اوڑھنی ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ مگر جوانی پھر اچانک کی موت کا دکھ بہت گہرا ہوتا ہے ۔ اخبار کی ملازمت کی ،ایک بڑے اخبار کے بیورچیف بھی رہے ،مگر اپنے دامن کو الائشوں سے پاک رکھا ۔کسی کو بلیک میل کیا نہ ہی کسی کی پگڑی اچھالی،ایک تہذیب کے دائرے میں رہ کر فرائض سر انجام دیئے ۔ ایک قادرالکلام صحافی ہونے کے باوجود شہرت کی جس شخص میں آرزو باقی نہ رہی ، اہلِ فقر کی ایک اور علامت یہ ہے کہ کسی چیز کے وہ مدعی نہیں ہوتے۔ کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ کبھی اپنا کوئی کارنامہ بیان نہیں کرتے۔ حرفِ تحسین کے طالب نہیں ہوتے۔ لوگ انہیں سادہ لوح سمجھتے ہیں حالانکہ وہی سب سے دانا ہوتے ہیں۔ سلیم الفطرت مگر ایسے کہ ساری زندگی سچائی، سادگی اور صبر میں بتا دیتے ہیں۔ایک سادہ سا آدمی مگر ایسی اخلاقی استواری کہ گاہے نامور علما بھی اس سے محروم۔ ایسا لگتا تھا کہ براہِ راست اس پہ ستاروں سے نور برسا ہے۔ سچ کی طرح سادہ اور اجلاآدمی۔ سلطان منصور اصغر راجہ نے زندگی کلفت میں بسر کی لیکن ایک جمال و جلال کے ساتھ۔ ایک روزہ دار کی طرح زندگی گزاری۔کم پر کفایت کی ،اللہ کا شکر ادا کیا ہے ۔ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، بے شک اللہ کے نور سے۔ تشہیر اور تحسین سے گریزاں ، جس آدمی کو اعلیٰ تر مقصد عزیز ہوتاہے ،ایسی خیرہ کن کامرانیوں پہ اس درجہ انکسار۔ اللہ کی رحمت بے کراں ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے ورنہ یہ سر زمین دانشوروں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں بنجر ہو گئی ہوتی۔ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، جی ہاں اللہ کے نور سے۔ اس کی داستان لکھنے کی کوشش کروں گا،اگرچہ کچھ زیادہ نہ لکھ سکوں گا کیونکہ وہ اس کے خواہاں نہ تھے۔تشہیر اور تحسین سے گریزاں تھے۔ سولہ سترہ برس کی صحبتِ سعید میں جو اس گنوار کی قسمت میں لکھے گئے۔وہ بڑے تاریخی تھے ، غم، فکر اور ہیجان سے پاک۔ ہمیشہ مکالمے پر آمادہ اور دائم مخاصمت سے آزاد۔ اختیار واقتدار کی آرزو اور فرقہ پرستی کی آلودگی سے پاک۔ ایسے ہی لوگ ہوں گے ، بخدا گزری صدیوں میں ایسے ہی لوگ ، جنہیں دیکھ کر مشرک مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔ کئی رہنماؤں کو دیکھتا ہوں کہ دل بجھے ہوئے اور ذہن تعصبات کے اسیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سلطان منصور اصغر راجہ کی اگلی منزلیں آسان کرے، میرے ساتھ ان کاتعلق ڈیڑھ عشرے سے تھا ، ان سے تعلق پیشہ ء صحافت ہی کی وجہ سے بنا، جو جلد ہی اچھی دوستی میں بدل گیا کہ منصور اصغر راجہ کی اپنی عادت اور مزاج بھی ایسا ہی تھا کہ وہ تعلق نبھاتے تھے۔میرے اور ان کے درمیان تو لنگوٹیوں جیسی بے تکلفی بھی تھی اور یہ آخری وقت تک رہی،ایک عہد تمام ہوا،دوسرے کا اب آغاز ہے۔لہذا تمام احباب سے گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے بلندی درجات کی دعا کریں ۔ اے اللہ! جس دن فوج درفوج میدانِ حشر میں لوگ جمع کر دیے جائیں گے۔ اعمال نامو ں کی باری آئے گی ،نیک اور بد الگ الگ ہونے کا اعلان ہو گا ،ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں تھما دیے جائیں گے۔ صابر وشاکر، متین اور باوقار‘ پیکر تحمل اور صداقت شعار سلطان منصور اصغر راجہ کے بارے میں دعا اور امید یہ ہے کہ ان کا نامہ ء اعمال دائیں ہاتھ میں ہوگا۔ انشاء اللہ وہ عرشِ بریں کے ٹھنڈے سائے میں ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭