عمران خان پوچھتے ہیں کہ جمہوریت کا علمبردار سمجھا جانے والا،صحافت، انصاف اور سیاست کے شعبوں میں پایا جانے والاوہ طبقہ جو عشروں ہمیں سویلین بالا دستی، شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کا درس دیتا رہا،اب خاموش کیوں ہے؟کیا خان صاحب نہیں جانتے کہ ’مغرب زدہ لبرلز ‘کا یہ گروہ اپنی سرشت میں ’سٹیٹس کو ‘ اور’ الیٹ کلچر ‘کا فطری نگہبان ہے ۔جب محدود الیٹ گروہ ملکی وسائل پر قابض ہو جائیں اور اقتدار ان کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے تو ایسی صورتحال کو elite captureکہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک اپنے ہاںصدیوں کی ریاضت کے بعد قومی سیاسی اور معاشی اداروںکو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔چنانچہ ان کے ہاں الیٹ گروہوں کی موجودگی کے باوجودان کا اثر و رسوخ متعین کیا جا چکا ہے۔ غیر ترقی یافتہ معاشرے مگر ’جمہور ی‘ کہلائے جانے کے باوجود چند الیٹ گروہوں کے سامنے بے دست و پا نظر آتے ہیں۔سیاسی جماعتیں چاہے امریکہ اور برطانیہ جیسے جمہوری معاشروں کی ہوں یاکہ آزاد بھارت میں نہرو اور اس کے بعدچند’بڑوں‘کی کانگرس ہو یا ہمارے ہاں کی خاندانی جماعتیںہوں،کسی نا کسی صورت میں’ الیٹ کلب ‘کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔’ نووارد‘ یا وہ جنہیںالیٹ گروہ’ سیاسی اجنبی ‘ (outsiders) قراردیتے ہیں، انہیں ان کی مقبولیت کے باوجود اپنے ہاں’ قبولیت‘ نہیں دی جاتی۔ دوسری طرف ایسے اکثر مقبول رہنمائوں کو ’پاپولسٹ‘ یا ’کلٹ لیڈرز‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ سٹیون لویٹسکی اور ڈینیئل زیبلاٹ نامی دو امریکی سکالرزنے ’ہائو ڈیموکریسیز ڈائی‘ نامی اپنی کتاب میںصدر ٹرمپ کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں اور آئینی اداروں سمیت اسٹیبلشمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کو وقتی طور پر بھلا کر’نوواردوں‘ اور ’ سیاسی اجنبیوں ‘کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کیلئے یکسو ہو کر جدوجہد کریں۔ اندازہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں کے مغرب زدہ لبرلز بھی عمران خان کو ایک ’پاپولسٹ لیڈر‘ ایک ’ کلٹ ‘اورایک ایسا ’سیاسی نووارد ‘اور’ اجنبی ‘قرار دیتے ہوئے کسی بھی صورت انہیں میدانِ سیاست سے نکال باہر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ یوں تو ہم سب hindsight میں عقل مند ہوتے ہیں، چنانچہ حال میں بیٹھ کر ماضی سے متعلق دانشوری بھگارتے ہیں۔تاہم اکثرتجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خان صاحب سے حالیہ دنوں میں اندازے کی چند فاش غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔ اندازے کی سب سے بڑی غلطی توانہوں نے اس وقت کی تھی جب انہیں صوبائی اسمبلیاں توڑنے سے پہلے واشگاف انداز میں بتادیا گیا تھا کہ انتخابات انہیں کسی صورت نہیں ملیں گے۔ ٹرین دوسری بار تب چھوٹی جب حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے حوصلہ افزائی کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔شنید ہے کہ ایک ہی روز انتخابات کے لئے تاریخ پر اتفاق ہو گیا تھا۔صدر علوی صورتِ حال کو کہیں بہتر انداز میں دیکھ رہے تھے، جبھی تو ان سے بیان منسوب ہوا کہ’ انتخابات کی جو تاریخ بھی ملے، پکڑ لو‘۔تاہم 9 مئی کے بعد معاملہ ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے اس وقت نکلا جب خان صاحب نیب کی قید سے رہائی کے بعد سیدھے سپریم کورٹ لائے جانے کے بعد ملک پر طاری کیفیت کا بظاہر درست ادراک کرنے میں ناکام رہے۔ صرف سپریم کورٹ نے نہیں، اگلے ہی روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی خان صاحب کو 9 مئی کے پُر تشدد واقعات کی غیر مبہم مذمت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رات کے پچھلے پہراُن کی سواری جو لاہور میں داخل ہوئی توخان صاحب زمان پارک کی بجائے سیدھے کور کمانڈر ہائوس کے صحن میں اترتے۔سوختہ دیواروں کی حدت کو ہاتھوں کی پوروں پر محسوس کرتے اوراپنے رگ وپے میں اتارلیتے۔ غیرمبہم مذمت اور خوفناک واقعات سے لا تعلقی کا اظہار غیر مبہم الفاظ میں کیا جاتا۔ دن چڑھے مگرزمان پارک جب خواب غفلت سے بیدار ہوا تو اُلٹاانہی کو آڑے ہاتھوں لیا جانے لگا جو پہلے سے گھائل بیٹھے تھے۔ کرب کے عالم میںتین راتیں جنہوں نے آنکھوں میں کاٹ کر گزاری ہوں ، مزید تضحیک کے لئے تیار نہیں تھے۔نتیجے میںریاستی مشینری پوری قوت سے بروئے کار آنے لگی۔جو ہوا سو ہوا، اندازہ تو یہی ہے کہ اب خود خان صاحب کو بھی صورتِ حال کی سنجیدگی کا ادراک ہوچکا ہے۔اپنی سیاسی جماعت کی عمارت کہ ایک ایک اینٹ جوڑکر جسے انہوں نے کھڑا کیا تھا،اب اپنی آنکھوں کے سامنے اسے مسمار ہو تے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔امید ہے کہ خان صاحب نے جنگ عظیم دوئم کے بعدلٹے پٹے جرمنی کی قیادت سنبھالنے والے کونرڈ ایڈنائر کا احوال تاریخ میں ضرورپڑھ رکھا ہو گا۔ حزبِ اختلاف نے جرمنی پرعائداتحادیوں کی جانب سے تضحیک آمیز پابندیوں اور آئے روز کے مطالبات کے سامنے جرمن چانسلر کی مدافعانہ پالیسیوں پر پُر جوش اعتراضات کئے تو جواب ملا،’میں اپنے دوستوں کو یاد دلا دوں کہ دوسری عالمی جنگ میںشکست جرمنی کو ہوئی تھی۔‘ پچھلے ایک برس میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے بے مثال سختیاں جھیلی ہیں۔تحریک انصاف اب بھی اگرچہ شکست خوردہ نہیں، چاروں طرف سے مگر طوفانوں میں گھر چکی ہے۔ وہ جو جلد مایوس ہو جانے کے عادی ہیں، فوری تو کیا انتخابات اب انہیں اکتوبر میں بھی نظر نہیں آتے۔اکثر تجزیہ کاروں کا مگر خیال ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہی ہوں گے۔ ریاست کی کچھ معاملات میں عجلت کو وہ اپنے اس دعویٰ کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔افسوس کہ خان صاحب اب بھی مذاکرات کے لئے کسی اور کو پکار رہے ہیں۔ اب آگے کیا ہے؟قرینِ انصاف تو یہی ہے کہ غیر جانبدارتحقیقات ہوںتو حقائق سامنے آئیں۔سامنے کی بات مگر فی الحال ایک ہی ہے۔9 مئی نے پاکستان کو آنے والے کئی برسوں کے لئے بدل دیا ہے۔حالیہ مہینوں کی کش مکش میں آئینِ پاکستان، آئینی اداروں اور ان کی عملداری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہور ی نظام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ اپنے ہاں،سیاسی جماعتوں کی راتوں رات شکست و ریخت دیکھنے کے ہم عادی ہیں۔ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت کو ہم آج پگھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔بچی کھچی جماعتوں پر مشتمل پارلیمنٹ کووقار کی بحالی کے لئے قانون سازی درکار ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی توبنیادیں ہل گئی ہیں۔ملک بھر میںبلوائیوں کے ہاتھوں جلائی جانے والی عمارتوں کی بُو باس اورسپریم کورٹ کے باہر ایک روزچنگھاڑنے والے لائوڈ سپیکروں کی گونج کئی قرنوں تک فضاء میں معلق تعفن پیدا کرتی رہے گی۔ہم نہیں جانتے قومی نقصانات کا ازالہ اب کیسے اور کتنی برساتوں کے بعد ہو گا۔دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ ہمارے ہاں قومی اداروں کو مستحکم بنیادوں پر استوا ر ہونے کے لئے ابھی عشرے درکار ہیں۔ وہ بھی اِس صورت میں کہ درست سمت کا تعین آج ہی ہو جائے ۔ہم سیاسی ابتری اور معاشی بدحالی کے اداس موسم سے گزر رہے ہیں۔اس سب کے لئے بے چارے لبرلز کے ساتھ تو خان صاحب کی گلہ گزاری ہرگز جائز نہیں۔