9مئی کا المناک دن بے یقینی کے سائے چھوڑ کرڈھلاتو اگلے روز کا سورج آگ اُگلتا ہوا نمودار ہوا۔نسیں خیموں کی تنابوں کی طرح تنی ہوئی تھیںتوجذبات کا پارہ آسمانوں کو چھو رہا تھا۔ دو چار روزکے اندر فضاء اس قدر بوجھل ہوگئی کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔حالات کی سنگینی اور ادارہ جاتی غم و غصے کو محسوس کرتے ہوئے مفاد پرستوں کے غول در غول ’آدم بو ،آدم بو‘ پکارنے لگے۔سیاسی ایجنڈا رکھنے والوں کا طرزِ عمل تو قابلِ فہم تھا، پکڑلو، ماردو، چھوڑنا نہیں، کا شور مچانے والوں کے اس ہجوم میں مگر وہ عناصربھی شامل ہو گئے کہ جوگزشتہ کئی برسوں سے ادارے کے خلاف ایک خاندان کی طرف سے چلائی جانے والی تضحیک آمیز مہم اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر برپا کی جانے والی ’ففتھ جنریشن جنگ‘ میں صفِ اول کے مہرے رہے تھے۔ 9مئی سے محض دو روزقبل، اِسی اخبار میں ’جمہوریت کیسے مرتی ہے‘ ،کے عنوان سے چھپنے والے اپنے کالم میں ازکارِ رفتہ سپاہی نے نقار خانے میں صدا لگائی تھی کہ سیاستدانوں کو نفرت کی سیاست ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مٹا دینے کی حیوانی خواہش پر قابوپاتے ہوئے آئین کی عملداری کو یقینی بنانا چاہئے کہ اِسی میں جمہوریت کی بقا ء ہے۔ سانحے کے فوراََ بعد کہ جب تحمل اور برد باری کا مشورہ دیناآگ سے کھیلنے کے برابر تھا، ازکارِ رفتہ سپاہی اپنے ہفتہ وارکالموں میں تواترکے ساتھ فریقین سے حالات کو سنبھالنے اور زخموں پر نمک پاشی کی بجائے مرہم رکھنے کی اپیل کرتا رہا۔اپنے وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے از کار رفتہ سپاہی کی رائے آج بھی وہی ہے۔ناچیز آج بھی یہی سمجھتا ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرہی اندھیری رات میںراستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔مقامِ اطمینان ہے کہ محض ہم جیسے عامیوں کی ہی نہیں،اب معتبر آوازیں بھی آئین اور قانون کی عملداری اور اس باب میں قومی مفاہمت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اٹھ رہی ہیں۔مجرموں کے ساتھ رعایت ہر گز نہیں برتی جانی چاہیے۔ تاہم گنہگاروںکے ساتھ بے گناہوں کا پسے جانا بھی قرینِ انصاف نہیں۔بڑے مجرم ایک روز ضرور بے نقاب ہوں گے۔ ایک روز مورخ اپنا قلم سنبھالے گا تو کڑی سے کڑی ملتی چلی جائے گی۔بڑے کینوس پر منظر کشی کی گئی تو ضرورکچھ ایسے کردار اُبھرکر سامنے آئیں گے کہ اجنتا کے غاروں میںصدیوں پرانی تراشیدہ شبیہوں سے ٹپکتی شہوت کی طرح، ذاتی مفادات کی ہوس جن کے پتھر چہروں پر کندہ ہو گی۔ خدا کچھ چہروں کو بے نقاب کئے بغیر زمین سے نہیں اٹھاتا۔ پرانا دَور لد چکا ۔ زمانہ نئی چال چل چکا ہے۔زمانے کی چال پر نظر رکھنے والے دیدہ ورسمجھتے ہیں کہ روائتی سیاسی خاندان اپنی طبعی عمر پوری کر چکے۔شہروں میں بسنے والے ہی نہیں، پہلی بار دیہاتی نوجوان بھی اب بیدار ہیں۔ ستر سے اسّی فیصدآبادی جن خاندانوں سے بیزار ہو ،ان کے مقابلے میں آج نہیں تو کل،حالات کے تھپیڑے کسی اورکواچھال کر قوم کا رہبر اور رہنما بنا دیں گے۔ متروک زمانے میں بسر کرنے والے مگر حالات سے نظریں چرا تے ہی رہیں گے۔خود نہیں تو اپنی اگلی نسلوں کو ہم پر مسلط کرنے کی خاطرہاتھ پائوں مارتے رہیں گے۔اکثرصرف بانٹتے ہوئے لڑتے ہیں،بقاء کی جدوجہد میںسب ایک ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں عبرانی زبان کا ایک لفظ Chutzpah کہیںپڑھنے کو ملاہے۔ مراد اس سے ’ڈھٹائی کا رویہ‘ ہے۔ اسی اتوار میاں صاحب نے سیالکوٹ میں کمال معصومیت سے پوچھا ہے کہ یہ کون ہے جو منتخب وزرائے اعظم کو جیلوں میں ڈالتا ہے؟ کل حالات بدلے تو ایک بار پھر ووٹ کو عزت دینے کا درس بھی دینے لگیں گے۔اداروں کی بے توقیری جو گزرے چند برسوں کے دوران ہر دو جانب سے کی گئی ہے، اس کے ازالے کے لئے عشروں درکار ہیں۔وہ بھی اس صورت میں کہ ہم آج ہی درست راستے کا تعین کر لیں۔ اکثر سہل اور کشادہ راستوں سے نہیں ،منزل کٹھن پگڈنڈی پر چلنے سے ملتی ہے۔اکثرایک کڑوا گھونٹ زہر کے تریاق کا کام بھی تو کرتا ہے۔ گئے دنوں کا ذکر ہے جب وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے زیرِ عتاب بے نظیربھٹو کے مابین محاذ آرائی عروج پر تھی۔ ارشاد احمد حقانی صاحب جیسے درد مند، انتقامی سیاست سے گریز اور سیاست دانوں کے مابین مذاکرات کی ضرورت پرلکھنے لگے۔ جواب میںشریف فیملی کے طرفدارسمجھے جانے والے ایک بڑے صحافی نے حقانی صاحب کی ہجو میں اسی اخبار میں’مذاکرات کے طوطے‘ کے عنوان سے ایک کالم داغ دیا۔ حقانی صاحب بھلا کہاں کے ٹلنے والے تھے، پلٹ کر انہوں نے ’محاذآرائی کے الّو‘ کے عنوان سے نہلے پر دہلا دے مارا۔ بے نظیر انتقامی کارروائیوں سے تنگ آکر کچھ عرصے کے بعد ملک چھوڑکر چلی گئیں۔ بعد ازاں میاں صاحب کی حکومت کا جو انجام ہوا اُس نے حقانی صاحب جیسوں کی رائے کی اصابت کو ثابت کر دیا۔ حقانی صاحب تو اب اس دنیا نہیں رہے، بزرگ صحافی اب بھی حیات ہیں۔ محاذ آرائی کی سیاست کے بارے میںوہ آج کیا سوچتے ہیں ، وہی بتا سکتے ہیں۔ عشروں پرانے ’کالمی مکالمے‘ کی یاد ہمیں اُس وقت عود کر آئی جب حال ہی میںممتاز صحافی جناب سہیل وڑائچ کی جانب سے سیاستدانوں کے مابین تعلقات کار کی بحالی اور آئین پر عملداری کی خاطر نواز شریف کو اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ اس مشورے کے ردعمل میں سینیٹر صاحب کی طرف سے حسبِ توقع ہجولکھی گئی ہے۔ راولپنڈی کے اِن سینیٹر صاحب کو اپنی استاد گیری پریوں ناز ہے کہ اکثر جرنیلوں اور ججوں کو اپنا شاگرد بتاتے رہتے ہیں۔ اب فرماتے ہیں کہ عمران خان جانیں اور ادارے جانیں۔سینیٹر صاحب سے ہم اسی طرزِ فکر کی توقع رکھتے ہیں۔کوئی ملک کو درپیش اس افسوسناک صورتحال میںکہ جب عوام کی بھاری اکثریت اگلی حکومت کے قیام سے متعلق وسوسوںکا شکار ہے، شاکی ہے، ایسی کسی تجویز کی حمایت کیوں کرے گا کہ بد گمانیوں کا تدارک جس کے ذریعے ممکن ہو۔عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مقامی کارندے بھی کہ جمہوریت ، انسانی حقوق اورسیاسی آزادیوں کا راگ الاپتے جو تھکتے نہیں تھے، خطے میں مغربی مفادات کے نگہبان کسی فردکی اقتدار میں واپسی کو یقینی دیکھتے ہوئے پاکستان کے اندر آئین کی عملداری اور عوامی حقِ رائے دہی جیسے معاملات میں خود کو کیوں الجھائیں گے؟ انصاف کے سیکٹر اورمیڈیا سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں موجود آئین کی سربلندی اوراُسے سکولوں تک میں پڑھائے جانے تک کا درس دینے والوںکے طرزِ عمل پر قلق ضرور ہے کہ جوقانون ، سیاسیات اورقوموںکی تاریخ جیسے علوم کے شناور ہونے کے دعویدار بھی ہیں ۔ ٭٭٭٭٭