22ستمبر2023جمعۃ المبارک کو چاربرس سے زائد عرصے تک اپنے گھر میں نظربندی کے بعد حریت کانفرس کے لیڈرمیرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق کی نظر بندی ختم کردی گئی ۔لیکن نظر بندی ختم ہونے کے بعدمیرواعظ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حریت کانفرنس کے سیاسی محاذ کو کیسے متحرک اور دوآتشتہ کرتے ہیں کیونکہ سید علی گیلانی کی وفات اورحریت کانفرنس کے کئی لیڈروں کے بھارتی جیلوں میںقیدہونے سے حریت کے اس محاذپرمکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے اوراس محاذ سے پہلے کی طرح اب بھارتی بربریت اورمظالم کے خلاف کسی زوردار عوامی احتجاج کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوپارہی ۔ نظری بندی کے خاتمے کے بعداب میرواعظ ہی ایسے نمایاں اوربااثرحریت لیڈر ہیں جواس محاذ کے خشک سوتوں میں طاقت بھر دیں ۔اس حوالے سے اسلامیان کشمیرمنتظر ہیں اور ان کی نظریں میرواعظ کو تک رہی ہیں جس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 22 ستمبر 2023 جمعہ المبار ک کو جب میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق سری نگر کی تاریخی جامع مسجد پہنچے تو لوگوں نے ان فقید المثال استقبال کیا۔اپنے تئیں لوگوں کی والہانہ محبت کے اظہار کودیکھ کرمیرواعظ کوخود بھی اس امر کا اندازہ ہوگیاہے کہ بے پناہ مظالم سہنے کے باوجودا سلامیان کشمیر بھارت کے سامنے سپر انداز ہونے پر ہرگز اورقطعاََآمادہ نہیں اس لئے ان کی ذمہ داریاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔ اس موقع پرمیرواعظ نے عوام کے جذبات اوراحساسات، ان کے عزم اورجوش ولولے اور ان کے طنطنے کو پہلے ہی کی طرح دیکھ کر اس عہد کا اعادہ کیا کہ وہ کشمیر کاز سے کسی بھی صورت سے دستبردار نہیں ہونگے۔ نظری بندی کے بعد سری نگر کی تاریخی جامع مسجدمیں عظیم الشان اجتماع سے اپنے پہلے خطاب میں میرواعظ کاکہناتھاکہ جموں و کشمیر کاتنازع بہت سے لوگوں کے لیے ایک علاقائی مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن کشمیر کے لوگوں کے لیے یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ہم ہمیشہ اسکے پر امن حل پر زور دیتے چلے آئے ہیں۔میرواعظ نے یوکرین تنازے کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی کا یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ دور جنگ کا نہیں ہے اسی لئے ہم بھی توجموں و کشمیر کے مسئلے کا بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے پرامن چاہتے ہیں۔ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد آمدپر عوام الناس کی طرف سے دیئے جانے والے استقبال پر آبدیدہ نگاہوں سے میرواعظ کاکہناتھاکہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے لیکن یہ سب لوگوں کی دعاؤں کی وجہ سے وہ یہاں دوبارہ موجود ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد لوگوں کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ جموں و کشمیر کی خصوصی شناخت چھین لی گئی اور اسے دہلی کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا، میرواعظ کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کے لیے آواز اٹھاؤں۔ اس دوران حریت کانفرنس آواز اٹھاتی رہی لیکن میڈیا نے ہمارے بیانات شائع اور نشر کرنے چھوڑ دیے۔ میرواعظ کاکہناتھاکہ میں اپنے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وقت صبر کرنے اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے کاہے کیونکہ کوئی ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ان کاکہناتھا کہ وقت ضروربدل جائے گااور ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پرکامل یقین رکھنا ہوگاجو قادر مطلق ہے۔اپنے خطاب میں میرواعظ نے تمام سیاسی قیدیوں، صحافیوں، وکلا، سول سوسائٹی کے ارکان اور نوجوانوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔اسے قبل اگست 2022 کو مقبوضہ کشمیر پرمسلط لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا تھا کہ میر واعظ عمرفاروق نے خود ساختہ نظر بندی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہماری طرف سے جامع مسجد جانے اوروہاںنماز جمعہ ادا کرنے کے حوالے سے ان پرکوئی قدغن عائد نہیںجس کے بعدمیر واعظ 26اگست 2022 کو سرینگر کی جامع مسجد میں نمازجمعہ کی ادا کرنے کے لئے جانے کا اعلان کردیاتھا لیکن واعظ انہیں اپنے گھر واقع نگین باغ سری نگر سے نکلنے نہیں دیاگیا۔ سری نگرکی تاریخی جامع مسجدکو تحریک آزادی کشمیر کے ایک بڑے پلیٹ فارم کی حیثیت حاصل ہے اور ہرجمعہ ہزاروں فرزندان توحیدیہاں جمعہ کی نماز کی ادئیگی کے بعد آزادی کے حق میں اوربھارتی استبدادکے خلاف صدا بلند کرتے ہیں جوبھارت کے لئے موت کاپیغام ہوتاہے۔ جامع مسجدسے بلندہونے والی آزادی کے نعروں کی گونج کودبانے کے لئے مودی رجیم کے کہنے پر مقبوضہ کشمیرکی نام نہاد گورنر انتظامیہ نے 4 اگست 2019 کومیر واعظ عمر فاروق کوگھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔میرواعظ عمر فاروق تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی پلیٹ فارم حریت کانفرنس کے ایک قدآورلیڈرہونے کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں ایک ممتاز مذہبی گھرانے ’’میرواعظ خاندان ‘‘کے چشم وچراغ بھی ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق کے والدمیرواعظ مولوی محمدفاروق کی شہادت کے بعد عمر فاروق میرواعظ بنے اورجامع مسجد سری نگر کے منبرپر سریرآراء ہوئے تو انہوں نے کشمیر کے حریت پسند عوام کی ترجمانی کی۔ میر واعظ کے خاندان کے نامور شخصیات قدیم زمانے سے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعے کی نماز پڑھاتے چلے آ رہے ہیں۔ کشمیر کا میر واعظ خاندان مقبوضہ وادی کشمیربالخصوص سری نگر کے ڈائون ٹاون یاپرانے شہرسری نگر میں غیر معمولی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ اس خاندان نے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی دینی، روحانی اور فکری راہنمائی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے پرآشوب دور میں مسلمانوں کی فلاح و اصلاح کے لئے اس خاندان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ میر واعظ رسول شاہ نے سال1897میں سرینگر میں انجمن نصرت الاسلام کی بنیاد رکھی ۔ اس انجمن نے سری نگر میںاسلامیہ اورینٹل کالج کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیاجسے کشمیرکے پہلے دینی مدرسے کااعزازحاصل ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل طلباء مولوی فاضل سندیافتہ کہلاتے ہیں۔ تاہم اب یہ مدرسہ عدم توجہی کے باعث روبہ زوال ہے ۔