ابھی کچھ ہی دیر پہلے لطیف کھوسہ کہہ رہے تھے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات تو مذاق ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منحرف رکن کا ووٹ شمار تو ہو نہیں سکتا،بے کار مشق بے فائدہ ہے۔نائنٹی ٹو نیوز پہ چلنے والے میرے شو میں ابھی ان کی گفتگو مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی خبر ٹی وی سکرینوں پہ فلیش کرنے لگی۔ ادھر رانا ثنااللہ سے پوچھا گیا جب نمبر پورے نہیں تو تحریک عدم اعتماد کیوں لائے ہیں۔ کہنے لگے بس ایک آئینی آپشن کو استعمال کیا ہے تاکہ کل کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ اپنے آئینی آپشنز کو بروئے کار کیوں نہ لائے۔گویا پی ڈی ایم کو بھی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا مکمل یقین ہے اور یہ مشق اسمبلیوں کے ٹوٹنے کا عمل چند دن کے لیے تاخیر کا شکار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے۔ منحرف شخص کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد تحریک عدم اعتماد کی کارروائی محض ایک رسمی کارروائی ہی رہ گئی ہے۔ جس پارٹی کے پاس جتنے نمبرز ہیں بس اتنے ہی نمبرز ہیں ۔پرویز الٰہی سے البتہ پی ڈی ایم نے امیدیں ضرور باندھ رکھی ہیں اور چودھری شجاعت کے ذریعے انہیں آفرز بھیجی جا رہی ہیں ۔ پرویز الٰہی سے کہا گیا ہے کہ عمران خان تو آپ کو وزیر اعلی برقرار نہیں رہنے دے گا آپ ہمارے وزیر اعلی بن جائیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی فہد حسین کا بیان بھی خبر بن کے ابھرا کہ پرویز الٰہی پی ڈی ایم کے امیدوار بن کے سامنے آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پرویز الٰہی اپنی سیاسی ساکھ کی قیمت پر ایسا کریں گے۔بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پرویز الٰہی کے ذہن میں کنفیوژن ہو سکتی ہے۔ مونس البتہ بالکل واضح ہیں۔ ان کی نظر اگلے پانچ سال پہ ہے۔انہیں نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف اس وقت سب سے مقبول جماعت ہے۔ انہیں یقین ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنا کر کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہیں ۔ بہتر رویے کا مظاہرہ کر کے وہ تحریک انصاف سے اچھی ڈیل بنا سکتے ہیں ۔جتنی زیادہ سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ ہو جائے اتنا بہتر ہے اور انتخابات کے بعد جتنے اچھے عہدے اور وزارتیں مل جائیں اتنا فائدہ ہے۔پرویز الٰہی موجودہ چھ ماہ کے لیے زیادہ فکر مند دکھائی دیتے ہیں جبکہ مونس الٰہی اگلے پانچ سال کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔میری معلومات کے مطابق تو مونس الٰہی اس بات میں بھی کوئی ہرج نہیں سمجھتے کہ اگلا الیکشن تحریک انصاف کے نشان بلے سے لڑا جائے۔ انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے پرویز الٰہی اگلی ٹرم کے لیے بھی وزارت اعلی کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ اسمبلیاں توبہرحال ٹوٹنے جا رہی ہیں۔ جمعے کو نہ صحیح منگل کوصحیح۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے کے بعد اسمبلیوں کو تو ٹوٹنا ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہوں گے یا نہیں ۔ قانون یوں تو اس ضمن میں واضح ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے نتیجے میں نوے روز کے اندر الیکشن ہونے ہیں مگر پی ڈی ایم کے قانونی ماہرین ایک نئی بحث نکال لائے ہیں ۔ کہتے ہیں یہ قانون ’’Directory‘‘ ہے ’’Mandatory‘‘ نہیں۔ یعنی الیکشن کمیشن کے پاس جواز موجود ہو تو الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ الیکشن میں تاخیر کا جواز ڈھونڈنا کونسا مشکل ہے۔ حلقہ بندیوں اور نئی مردم شماری کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے۔ وہ الگ بات کہ آٹھ مہینے پہلے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جا کر کہا تھا کہ فوری الیکشن ممکن نہیں ،ہمیں الیکشن کی تیاری کے لیے چھ ماہ کا وقت درکار ہے۔ اور آج پی ڈی ایم پھر یہی بہانہ تراشنے کی کوشش میں ہے کہ الیکشن کی تیاری کے لیے چھ مہینے درکار ہیں ۔ نہ جانے یہ چھ مہینے کب شروع ہوں گے اور کب ختم ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن اس سارے معاملے میں الگ ہی منطق رکھتے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ خیبرپختونخوا اور افغان سرحد پر کشیدگی کو بنیاد بنا کر انتخابات کو ایک سال کے لیے آگے بڑھا دیا جائے۔گویا ان کے وزیر وزارتوں کے مزے لوٹتے رہیں اور ملک جائے بھاڑ میں ۔ الیکشن ملک کی ضرورت ہیں۔ غیر یقینی اور عدم استحکام کی کیفیت نے ملک بھر میں بے چینی پیدا کر رکھی ہے۔معیشت سنبھلنے کا نام نہیں لیتی۔عوام کا جینا دوبھر ہے۔ کارخانے بند پڑے ہیں ، کاروبار چل نہیں رہا۔ ایک ہی امیدہے کہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں ایک حکومت منتخب ہو کر آئے ،پانچ سال کی پالیسی بنائے جس پر عوام اعتماد کریں اور اپنے سرمائے کو حرکت میںلائیں۔ حکومت بھی معیشت کا پہیہ چلانے کی کوئی سبیل کرے اور مختلف کاروباری طبقات کو مراعات دے کر نئے سرے سے امید جگائے۔تبھی شاید مایوسی کے یہ بادل چھٹیں گے اس کے علاوہ تو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک انصاف جس طرف حالات لے جا رہی ہے اس کی روشنی میں دو صوبوں میں پہلے اور باقی ملک میں چھ مہینے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں ۔ ملک شاید اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ باخبر حلقوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ بھی یہ نہیں چاہتی کہ الگ الگ الیکشن ہوں ۔ اسٹیبلشمنٹ بھی پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن چاہتی ہے۔ اسحاق ڈار اور صدر عارف علوی بھی اسی موضوع پر بار بار مل رہے ہیں ۔کچھ نہ کچھ تو اس میں سے بھی نکلنے کی امید ہو گی ہی ورنہ آٹھ ملاقاتیں تو ہرگز نہ ہوتیں۔ درمیانی راستہ یہی ہے کہ مئی جون میں انتخابات ہو جائیں۔ عمران خان مارچ میں الیکشن چاہتے ہیں ، حکومت اکتوبر میں ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اگر مل بیٹھیں تو مئی یا جون میں اتفاق ہو سکتا ہے۔حل یہی ہے کہ الیکشن ہوں،نئی حکومت اپنا بجٹ پیش کرے نئی معاشی پالیسیز لے کر آئے اور معاشی ہیجان میں مبتلا قوم کو مشکل سے نکالے ۔