کچھ عرصہ سے مسلم لیگ (ن) کی داخلی سیاست‘ شخصی لڑائیاں اورجماعت کے اندرایک دوسرے سے مختلف سوچ رکھنے والے دھڑوں کی آپسی کشمکش کھُل کر‘ زیادہ شدّت کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ بنیادی طور پر مسلم لیگ(ن) سابق وزیراعظم نواز شریف کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے لیکن سپریم کورٹ اُنہیں کوئی عوامی عہدہ رکھنے کیلیے تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے۔ ایک احتساب عدالت سے انہیں بدعنوانی کے دو مقدمات میں قید اور بھاری جرمانہ کی سزا ہوچکی ہے۔ وہ علاج معالجہ کے بہانہ سے جیل سے نکلے اورپونے دو سال ہوئے ملک چھوڑ کر لندن جا بیٹھے ہیں۔ان حالات میں انکی جانشینی کا سوال پیدا ہونا فطری بات ہے۔ قانونی طور پر نواز کے چھوٹے بھائی اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں لیکن نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کو بھی پارٹی میں اہم مقام حاصل ہے ۔ پارٹی کا ایک دھڑا مریم نواز کو اپنے والد کا اصل جانشین تصوّر کرتا ہے اور ان سے ہدایات حاصل کرتا ہے۔ہر دو صورت میںشریف خاندان پارٹی کا مرکز ومحور ہے۔قیادت عملی طور پر شہباز شریف کے پاس رہے یا مریم کو منتقل ہوجائے لیکن شریف خاندان کے اندر ہی رہے گی۔ پاکستان ایسے نیم قبائلی‘ نیم جاگیردارانہ معاشرہ میں سیاسی خاندان نسل در نسل راج کرتے ہیں۔ ن لیگ کی سیاست کو سمجھنے کیلیے کلید نواز شریف کی شخصیت اور انکا سیاسی ارتقاہے۔مانا کہ شروع میں نواز شریف کو ریاستی اداروں نے پالاپوسا‘ پرورش کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے قومی سیاست میں اپنے لیے ایک منفرد مقام حاصل کرلیا۔ انکی سیاست کو پروان چڑھانے میں اہم ترین کردار’ سرپرستی کے کلچر‘ کا ہے جس میںانہیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ شروع میں توبطور وزیراعلیٰ پنجاب انہوں نے حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے اپنے ساتھیوں‘ حامیوں کو نوازا۔ کسی کو بڑے شہروں میں اونے پونے داموںمہنگے پلاٹ دیے۔ کسی کو سرکاری زرعی زمینیں الاٹ کیں۔ کسی کوکروڑوں‘ اربوں روپے کے سرکاری ٹھیکے دلوائے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے کاروبار کو بھی سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے وسعت دیتے چلے گئے۔ پنجاب کے کاروباری طبقہ اورسیاسی طور پر سرگرم متوسط طبقہ میںیہ بات راسخ ہوگئی کہ نواز شریف کا ساتھ دینے والا غریب نہیں رہتا بلکہ چند برسوں میں امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ نواز شریف کی قیادت میںسرپرستی کا ایک منظم نظام وجود میں آگیا ۔سونے پر سہاگہ‘ شریف خاندان کو شمالی‘ وسطی پنجاب میں پھیلی اپنی کشمیری برادری کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے ۔ نوازشریف شمالی اور وسطی پنجاب کے تاجر‘ کاروبار ی طبقہ کے نمائندہ لیڈر ہیں۔اس خطہ میں معیشت کی ترقی اسطرح ہوئی ہے کہ صنعت سے زیادہ تجارت کا فروغ ہوا ہے۔ ہر سال بیرون ملک سے کھربوں روپے کی ترسیلاتِ زر آتی ہیں جن سے تجارت بڑھتی جاتی ہے۔ شریف خاندان اس طبقہ کے مفادات اورآرزوؤں کا نمائندہ ہے۔پہلی بار ایسا ہوا کہ پنجاب میںجاگیرداروں اور افسر شاہی کے کنٹرول کو ختم کرکے کسی لیڈر اور سیاسی جماعت نے کاروباری طبقہ کے مفاد میں کام کیے۔ شریف فیملی سے پہلے پنجاب میں جاگیرداروں کا سکّہ چلتا تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جومعاشی اور سماجی تبدیلیاں آئیں اس میں بڑے زمینداروںکا معیشت میں حصّہ کم ہوتا گیا اور اسی کے مطابق انکی سیاسی حیثیت بھی کمزور پڑ گئی۔ مسلم لیگ(ن) زمینداروں پر کاروباری طبقہ کے غلبہ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس پارٹی میں بھی بڑے زمیندار ہیں لیکن غالب حیثیت شہری‘ کاروباری طبقہ کو حاصل ہے۔ ترقیاتی کاموں خاص طور سے بڑے منصوبوں کو تیزرفتاری سے مکمل کروانا نواز شریف اورشہباز شریف کی مقبولیت کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ پنجاب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ شریف برادران میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ افسر شاہی کی رکاوٹو ں کو خاطر میں لائے بغیر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں جیسے سڑکوں‘ بجلی کے پراجیکٹ وغیرہ کو بروقت مکمل کروالیتے ہیں۔اِنکے دور میں ترقیاتی کام برق رفتاری سے ہوتے ہیں۔ اس تیزرفتار ی پردانشوروں کے تحفظات اپنی جگہ لیکن عام لوگوں کے نزدیک یہ خوبی کی بات ہے۔ نواز شریف کی حمایت ‘ ووٹ بینک کو تقویت پہنچانے والے جو دو تین بڑے عوامل ہیںانکا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ(ن) حکومت میں رہے۔ تب ہی تو وہ اپنے حامیوں کی سرکاری وسائل سے سرپرستی کرسکتی ہے‘ ایسے ترقیاتی کام کرواسکتی ہے جو نظر آئیں اور کاروباری طبقہ کے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ یہ پارٹی عملیت پسند بااثر لوگوں کا اجتماع ہے۔ کوئی نظریاتی گروہ نہیں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نواز شریف کو جب اقتدار ملتا ہے تو انکی ذاتی خامیاں انکی خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔وہ عرب یا مغل بادشاہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقتدارکُل کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کبھی اعلیٰ عدلیہ سے ٹکرا جاتے ہیں۔ کبھی عسکری قیادت سے۔ اب وہ فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ انکی بیٹی مریم نواز اس موقف کی حامی ہیں۔ نواز شریف کے بیانیہ کی حمایت ایک مخصوص لبرل طبقہ کررہا ہے جو امریکہ کا حامی اور بھارت نواز ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں ریاستی اداروں سے ٹکراؤ کی اس پالیسی کو وسیع عوامی حمایت حاصل ہونا فی الحال تو ممکن نظر نہیں آتا۔ شہباز شریف کی پالیسی اس کے برعکس مفاہمت وتعاون پر مبنی ہے۔ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ مل جُل کر چلنا چاہتے ہیں ۔ اپنے بھائی کی نسبت شہباز شریف زیادہ بردبار‘ متحمل مزاج ہیں۔انکی شخصیت میں توازن اور ٹھہراؤ ہے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) کے زیادہ تر رہنما شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ بتدریج لیگی کارکن بھی انکے ہم خیال ہوتے جارہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کے باعث پارٹی اگلا الیکشن بھی نہیں جیت سکے گی۔ پاکستان کے عوام محاذ آرائی کی بجائے ملک میںاستحکام اور ترقی کے آرزو مند ہیں۔حالیہ دنوں میں نواز شریف اور مریم نواز نے شہباز شریف کی پالیسی کے خلاف اپنے کارندوں سے بیانات دلوائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت شہباز شریف اور انکے فرزند حمزہ شہباز گھر بیٹھ جائیں تو مریم نواز مسلم لیگ(ن) کو سنبھال نہیں سکیں گی۔ پارٹی کے کئی سینئر رہنما صرف نواز شریف کی خاطر انکا احترام ملحوظ رکھتے ہیں ورنہ وہ اُنکو اپنا قائد تسلیم کرنے کیلیے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) حکومت میں نہ ہونے کے باوجود ابھی تک شمالی اور وسطی پنجاب کی مقبول ترین جماعت ہے۔حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں پارٹی کی پنجاب میں فتح نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ لیگی رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات اور سزائیں پارٹی کی عوامی حمایت کو کم نہیں کرسکیں۔تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت میں ہوشربا مہنگائی نے بھی مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت کو مستحکم کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو ایک ہی بڑا چیلنج درپیش ہے وہ نواز شریف کی جانشینی کی لڑائی ہے۔ اگر نواز شریف اپنی بیٹی کی محبت میں اپنے بھائی کو قربان کرتے ہیں تو پارٹی آنے والے دنوں میں منتشر اور کمزور ہوگی۔ بصورت ِدیگر شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن)پنجاب اور ہزارہ ڈویژن میں تحریک انصاف کی سخت حریف ثابت ہوگی۔