مت ہمیں چھیڑ کہ ہم رنج اٹھانے کے نہیں زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں خود ہی اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں یقیناً سب سے بڑی خبر تو یہی ہے کہ پرویز مشرف چلے گئے کہ سب کو ایک دن جانا ہے۔مگر فیض نے کسی کے لئے خوب کہا تھا جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں یقیناً زندگی مقصد بن جائے تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے پرویز مشرف تو طبعی موت چلے گئے یہ بھی کچھ کم بہادری نہیں کہ ایسی مخالفت میں کوئی اتنی دیر زندہ رہے۔میں اس موضوع کو چھو کر گزرجانا چاہتا ہوں۔وابستہ تیری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں۔ اس کے ساتھ اس سے بھی بڑا موضوع کشمیر کا ہے اور شہ سرخی بھی اس پر جمائی گئی ہے کہ کشمیریوں سے یکجہتی‘ قوم یک زبان اور ملک میں ریلیاں یقین کی جئے کہ پاکستان کے عوام دل و جان کشمیریوں کے ساتھ ہی نہیں ان کے ساتھ ان کے دل میںبھی دھڑکتے ہیں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم ہمیں ملول بھی کر دیتے ہیں ہم تو اس درد کے ساتھ یہ پیدا ہوئے ہیں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ پچاس سال پہلے جب میں سکول میں تھا تو دادا حضور حبیب اللہ شاہ کی ایک کتاب درد کشمیر پڑھا کرتا تھا کہنے کا مطلب کہ کشمیر سے محبت اور ان کا احساس ہمیں ورثہ میں ملا اس حوالے سے یہ بات درست ہے کہ پرویز مشرف کا اس پر موقف بے لچک تھا۔ 5مئی کی چھٹی جب سے رائج ہوئی تو یہ فارمیلٹی سی بنتی گئی اس کی روح اب مجھے نظر نہیں آتی۔ ہاں ریلیوں کی حد تک بھی غنیمت ہے وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران خاموش کر دیے گئے کچھ تو ویسے ہی بھارت نواز تھے کہ مودی کو دعوت دے کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک تک چھڑک دیا۔بعد میں آنے والے میں ان کے حق میں صرف چند منٹ کی خاموشی ہی دکھا سکتے ۔ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی تو اچھی بات ہے مگر آپس کی یکجہتی کے بارے میں تو کچھ سوچا جائے کہ ایک بے برکتی سی پورے ملک میں ہے۔ گروپ بندی یا سیاسی فرقہ بندی اس قدر شدید ہے کہ گالی گلوچ سے بھی کوئی کوئی ہاتھ نہیں کھینچتا۔کسی کو بے عزت کرنا یا ذلیل کرنا ایک فن سمجھا جاتا ہے گویا کہ مکالمہ ختم ہو چکا۔میں سوچتا ہوں کہ کبھی قومی یکجہتی ہوا کرتی تھی اس یکجہتی کے لئے کوشش بھی ہوا کرتی تھی۔مجھے یاد ہماری ایک صحافی کنول نے ایک زمانے میں قومی یکجہتی کونسل بھی بنائی تھی یعنی ایک بیداری ضرور تھی کہ قومی معاملات میں کبھی لوگ اکٹھے بیٹھ جایا کرتے تھے اس کی سب سے بڑی مثال 73کا آئین ہے کہ سب مل بیٹھے اور ملک کو ایک متفقہ آئین نصیب ہواشاید میں اپنی بات سمجھا سکوں کہ کہیں عمران خان سے بھول ہوئی کہ روٹھ کر بیٹھ گئے : مجھے یہ دھیان رکھنا ہے کہ رستے ہی رکاوٹ ہیں انہی رستوں پہ رہ کر ہی سحر کو شام کرنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان سے بڑی غلطی سرزد ہو گئی کہ من مانی کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں رہی آپ کو یہاں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ میرا ایک پھوپھو زاد تھا مجتبیٰ وہ کمال کا آدمی ہے وہ گھر والوں سے ناراض ہوتا تو فریج خالی کر دیتا یعنی سب کچھ ہڑپ کر جاتا یعنی وہ عام بچوں سے مختلف تھا وہ کہتا ہوتا کہ وہ بچے بے قوف ہیں جو والدین سے روٹھ کر کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں اور اپنا نقصان کرتے ہیں پتہ نہیں مجھے خان صاحب بھی ایسے ہی معصوم لگے کہ پہلے اسمبلی سے نکلے پھر پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ان کا پریشر ختم ہوا تو شہباز گل ‘ اعظم سواتی اور فواد چودھری پولیس کے ہاتھ لگے ۔دشمن تو یہی چاہتے تھے اور اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے کہ جب انہیں نگران سیٹ اپ کے لئے واپس جانے کا خیال آیا تو دیر ہو چکی تھی پی ڈی ایم نے ایک ادارے ساتھ مل کر راجہ ریاض کو بچایا۔اپنا ایک تازہ شعر یہاں ضرور لکھوں گا: سعد ویرانیاں مبارک ہوں آپ نے خود چنا تھا یہ رستہ مجھے تو کبھی کبھی میر بھی اس ضمن میں یاد آ جاتا ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں کون نہیں جانتا کہ طاقتور طاقتورکی قدر کرتا ہے۔بے شک طاقت یہ خود اس نے دوسرے کو دی ہو ویسے بھی اقتدار وسائل رکھتا ہے ۔ ایک اور خبر تھی کہ پرویز مشرف مشکل فیصلہ میں ثانی نہیں رکھتے تھے اس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔موجود حکومت پرویز مشرف سے کم نہیں انہوں نے تو سب سے مشکل فیصلے کئے ہیں اور عوام کو بری طرح ایک مشکل میں ڈال دیا ہے مشکل فیصلہ اسی کو کہتے ہیں جو دوسروں کے لئے مشکل ہو اس میں حکمرانوں کا کیا جاتا ہے انہوں نے تو قرضے لئے ہوئے ہیں اور آئی ایم ایف کی غلامی ویسے اب کے مشکل فیصلوں سے حکمران بھی مشکل میں پڑ گئے ہیں وہ بھی روائتی انداز میں سارا ملبہ عمران پر ڈال رہے ہیں بے شک ان کی بات درست بھی ہو مگر ہر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ کیا آپ آم کھانے لائے گئے تھے: زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میر کس بھروسے پہ آشنائی کی سچی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب نے کورونا کے باوجود اتنی مشکلات پیدا نہیں کیں جتنی موجودہ رجیم نے پیدا کی ہیں بلکہ ایک زخم کے مقابلے میں کاری زخم لگایا ہے لوگ حیران ہیںکہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے تنخواہ داروں کو تو نچوڑ کر رکھ دیا ہے تاجر خوش ہے کہ وہ مہنگائی میں اپنا حصہ بھی ڈال لیتا ہے صرف ایک چھوٹی سی مثال کہ دودھ میں پائو کا ڈبہ جو غریب تیس روپے کا لیتا تھا اب 70روپے کا ہو گیا ہے کہنے کا مطلب بعض اشیا ڈبل سے کیا اوپر جا رہی ہیں دودھ والا 220 روپے دودھ دے رہا کہ چارہ مہنگا ہو گیا اور مہنگا چارہ کھانیوالی بھینس کیوں مہنگی نہ ہو گی ۔مگر کمال تو شہباز شریف کا ہے کہ مہنگی گاڑیاں پھر بھی اپنے شراکت داروں کے لئے خرید رہے ہیں۔قمر رضا شہزاد کا ایک شعر: جس محبت نے بچائے تھے مرے شہر کے لوگ دکھ تو یہ ہے کہ وہی پہلا نشانہ ہوئی ہے