معلومات کی دنیا اور ہمارے ذہن و قلب کے نقشے پہ کُلبلاتا،مِصر ایک ایسا ملک، علاقہ یا بستی ہے، جس سے متعلق ہمارے اندر ہمیشہ بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی۔ جذبات و تصورات میں مسلسل نفرت و محبت کی ایک انوکھی عمارت تعمیر و تخریب کا شکار رہی۔تاریخ کے جبر اور ہمارے صبر کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مصر سے ہمارے تعارف کی ابتدا ہی فرعون سے ہوتی ہے۔ زندگی میں جب جب مصر کا تذکرہ ہوا، ذہن کے صحن میں فرعون، ھامان، برادرانِ یوسف، بردہ فروشی، سُوت، سَوت، سوتیلا پن، دریائے نیل کا ہر سال جوان لڑکی کی قربانی مانگنا، دستِ زلیخا، قید خانہ، قحط،سونے کا بچھڑا، سامری جادوگر، ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگتے۔ آپس کی بات ہے، ایک زمانے تک تو ’قاہرہ‘ کا نام سن کے بھی ہمارے ذہن میں فراعنۂ مصر کی کسی جابر عفیفہ کا تصور اُبھرتا تھا۔ حکیم جی کے بقول فرعون کی پسر کُشی بھی، مصر کُشی کا ایک بڑا سبب رہی۔ جذبات کی نگری میں زنانِ مصر سے کچھ امید بندھتی تھی، لیکن یہاں تو اُن کے ہاتھوں بھی چاقو دکھائی دیتے ہیں۔ معروف شاعر نسیم لیہ نے اس سرزمین کی سفاکی کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: دیارِ مِصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے! ہمارے ایک سابق آئی جی جناب طاہر انوار پاشا نے مصر کا سفرنامہ لکھا جو مصنف کی حیرانی، بیوی کی نگرانی اور فراعنۂ مصر کی فراوانی سے لبالب تھا۔ ہم نے اس پہ جو تبصرہ لکھا اُس کا لُبِ لباب یہ تھا: الف انوار ، ب بیوی ، ف فرعون بُلھیا کیہ جاناں مَیں کون ؟ ایک یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں آتی رہی کہ یہ کیسی بستی ہے کہ جہاں کے باشندوں کی تمام تر ہٹ دھرمیوں اور کٹ حجتیوں کے باوجود، قدرت ان پر ہمیشہ دل کھول کے مہربان رہی، کبھی یہاں معجزات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے دکھائی دیتے ہیں۔ شہر بھر کیبچوں کا قاتل، اپنے قتل کا سبب بننے والے کو گھر میں پناہ دیے بیٹھا ہے، جلا ہوا ہاتھ یدِ بیضا کے درجے پہ فائز ہے،شہر بھر کے ساحر، خدائے وقت کو نظرانداز کر کے بندۂ خدا کے ہاتھ پہ بیعت کرنے پہ اُتارُو ہیں، کہیں آگ لینے جانے والے کو پیغمبری مل رہی ہے، شبانی سے کلیمی دو قدم پہ دھری ہے، اگرچہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کی تحقیق اس فاصلے اور فیصلے کو ماننے سے انکاری ہے۔ پھر کہیں لاڈلی قوم کے لیے من و سلویٰ کی بارش ہے، کہیں خدا سے ہم کلامی کی نوازش ہے،قمر جلالوی لاکھ کہتے رہے: موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئی ہے جاتے میں قدم اور تھے ، آتے میں قدم اور لیکن دیکھیے تو سہی کہ عصا کی ایک ضرب سے ہر قبیلے کے لیے چٹانوںکی کوکھ سے چشمے اُبل آئے ہیں، اُسی عصا کے اشارے پر دریائے نیل کے گہرے پانیوں کے بیچوں بیچ راستہنکل آیا ہے۔ مذکورہ بالا کرم گستریوں ہی کے سبب مصر سے ہماری محبت کا سلسلہ اس حد تک برقرار رہا کہ ہم’لکھے مُو سا، پڑھے خود آ‘کو بھی خدا سے موسیٰ ؑکی خط کتابت ہی کا کوئی سلسلہ سمجھتے رہے۔پھر بھلا ہو اُن چند بھلے مانس زعما کا، جو وقفے وقفے سے ہماری اس محبت کو طراوت بخشتے رہے۔ پہلے سرسید، شبلی،کمبل پوش اور بعد ازاں محمود نظامی کی تحریروں نے بھی مصر سے متعلق ہمارے دل کو کچھ نرم کیا، کچھ ڈاکٹر نجیب جمال اور ڈاکٹر اختر شمار کی باتوں گھاتوں سے معاملات رفع دفع ہوئے۔ یونیورسٹی کے زمانے میںہمارے دوست ابراہیم محمد ابراہیم نے اخلاقیات نیہمارے دیرینہ خوف کو دل بدر کیا اور اب ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور ان کا پورا کنبہ ایک ڈیڑھ دہائی سے ہمارے ذہنوں میں ایک نیا ’مصراب‘ تعمیر کرنے کے درپے ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر کا تعلق سرزمینِ سرگودھا سے ہے اور سرگودھا کے لوگوں میں ایک بات دیکھی ہے کہ یہ دَھن کے دَھنی ہوں نہ ہوں، دُھن کے پکے ضرور ہوتے ہیں۔ ’مصر: خواب اور تعبیر‘ کے مطالعے کے بعد تو یہ حضرت ہمیں مصر میں پاکستان اور پاکستان میں مصر کے سفیر دکھائی دینے لگے ہیں۔’فی حُبِ مصر‘بتاتی ہے کہ ان کو مصر سے اُردو ہی میں نہیں عربی میں بھی محبت ہے۔ ڈاکٹر صاحب مصر کے تاریخی مقامات پہ ایک ایسے سیّاح کے رُوپ میں نظر آتے ہیں،جو ہمہ وقت تفریح کے کٹورے کی بجائے تحقیق کا کوڑا ہاتھ میں اٹھائے رکھتے ہیں۔ وہ تو فرعون کے حمام پہ بھی تعریف کی تری سے مستفید ہونے کی بجائے تاریخ کی خشکی میں غوطہ زن دکھائی دیتے ہیں۔شاید ان کی ایسی ہی اداؤں پہ جرمن سفیر اور پاکستانی وزیر تک فریفتہ ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کی اس دقت نظری نے جہاں ہماری بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے وہاں بے شمار خوش فہمیوں کا بھی بے دردی سے خون کیا ہے۔ ہم ایک عرصے سے خدا کے جلوے سے جل کر سُرمہ بن جانے والے طور پہاڑ کی تقدیر، اس کے سُرمے کی تاثیر اور ایک نامعلوم شاعر کے اس شعر کی تنویر کے طلسم میں گرفتار تھے کہ: دعویٰ کروں گا حشر میں موسیٰ پہ قتل کا کیوں آب دی اس نے مِرے قاتل کی تیغ کو قومی ترانے کے خالق بھی جھوم جھوم کے گاتے رہے: موسیٰ نے پہلے ہی قدم پر/ غش کھایا اور سستے چھُوٹے/ جل کر رہ گیا طُور/ مسافر تیری منزل دُور/ لیکنڈاکٹر صاحب نے یہ بتا کے ہمارے تجسس کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی کہ کوہِ طور پر تو سرے سے سُرمے کے آثار ہی مفقود ہیں۔ قبل ازیں ہم پر ایسا ہی ایک ستم نیل آرم سٹرانگ،چاند کی اندرونی تصویر دکھا کے ڈھا چکے ہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب کی ’پالنے ولا فرعون اور ، نکالنے والا فرعون اور‘ والی عمیق تحقیق نے تو ہمارے اذہان و قلوب میں فرعون سے متعلق صدیوں سے پال پوس کے جوان کی گئی نفرت کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم ٹھہرے قصے کہانیوں سے لطف اندوز ہونے والی قوم، خواب خیالی میں مست، تعبیر تراشی سے گریزاں۔ ننگے حقائق کی انھی ستم ظریفیوں کی بنا پر تو اس ظالم تحقیق بی بی سے ہماری آج تک نہیں بنی۔ مختصر یہ کہ موسیٰ سے مُرسی تک یہ مصر ہمارے نزدیک عجائب و معائب و مصائب کا ایک وسیع کارخانہ رہا ہے۔ ہم آج تک اس سے وابستہ کہانیوں اور اس پر ہونے والی طرح طرح کی حکمرانیوں کے تصور میں مست رہے ہیں۔ یہ سن کے اور بھی خوشی ہوئی تھی کہ مصر کے سیاسی، سماجی حالات بھی وطنِ عزیز سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ایسے میں ہمیں ڈاکٹر زاہد منیر عامر جیسے لوگوں کی سمجھ نہیں آتی جو شاعرِ مشرق کی مانند اب تک اس طرح کے نرالے خواب دیکھنے پہ مُصر ہیں کہ: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر جب کہ ہمارے حکیم جی کا فرمان ہے کہ اس خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے لیے بہت ضروری ہے کہ: ’نیک‘ ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے