ہر سال15 اگست سے مقبوضہ کشمیر میں وسیع علاقے میں پھیلے سیب کے باغات سے سیب اتارنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو اکتوبرکے وسط تک جاری رہتا ہے ۔ سیب مقبوضہ کشمیر کی معیشت کی شہ رگ ہے ۔مقبوضہ کشمیرمیں 1,45 لاکھ ہیکٹر اراضی پرپھیلے ہوئے سیب باغات سے سالانہ تقریباً21 لاکھ میٹرک ٹن سیب کی پیداوارہوتی ہے، جبکہ 45 لاکھ نفوس یعنی وادی کشمیر کی نصف آبادی کا روزگارسیب صنعت سے وابستہ ہے اورسیب ہی کشمیری مسلمانوں کا اصل اوربنیادی ذریعہ معاش ہے۔ لیکن بھارت کو کشمیری مسلمانوں کی معاشی صورتحال ہرگز برداشت نہیں اور وہ ہرسال کشمیر کی فروٹ صنعت کی تباہی کے لئے سازش رچاتا رہا ہے۔یہ اس لئے کہ بھارت کا خیال خام یہ ہے کہ کشمیری عوام کا ذریعہ معاش ختم ہوگا تو وہ بھارت کی دہلیز پردست بست ڈھیرہوجائیں گے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ بھارت کی کشمیر دشمن پالیسیوں اور سہ مکھی بھارتی ظلم وجبرکے باعث اسلامیان کشمیر کی معیشت تباہ ہوگئی، تاجر کنگال اور کسان بدحال ہوچکے ہیں ۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی فروٹ صنعت کو تباہ اوربربادکرنے کے لئے تازہ وار یہ کیاگیا ہے کہ 10ستمبرکو دہلی میں منعقد جی 20 اجلاس کے موقع پر بھارت کی طرف سے امریکی سیب ،اخروٹ اوربادام کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ۔یہ اقدام اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن کے 9-10 ستمبر کو جی 20 کے نئی دہلی کے اجلاس میں شرکت سے پہلے جون 2023ء میں اس وقت ہوا تھاکہ جب مودی امریکہ کے سرکاری دورے پر تھے اوراس موقع پر دونوں ممالک نے WTO کے چھ تنازعات کو ختم کرنے اور بعض امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس کا اعلان 10ستمبر کو جی 20 اجلاس کے دوران سامنے آیا۔ بھارت کے اس اقدام سے کشمیرکے فروٹ اورڈرائی فروٹ اور عمومی طور کاشتکاروں کو زبردست نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا۔کہ اس سے کشمیری سیب، اخروٹ اور بادام کی تجارت پر انتہائی مضر اثر پڑے گا ۔کشمیر کاسیب پہلے ہی سے ہماچل اور اتراکھنڈ کے سیب کی وجہ سے متاثر تھا اب اس پر یہ نئی افتاد آن پڑی ہے۔ مقبوضہ کشمیرکا سیب جس کی یہاں بے شماراقسام پائی جاتی ہیں نہ صرف اپنے ذائقے اورلذت کے حوالے سے دنیا میں نمبر ون ہے اور خوشبو کے اعتبار سے مشہور ہے بلکہ اس کا تقابل براہ راست امریکہ ، چیلی، چین اور آسٹریلیا کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ سرینگر کے شمال میں واقع قصبہ سوپور میں، جو’’ ایپل ٹاون آف ایشیا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔جبکہ سری نگرکے جنوب میں قصبہ شوپیان سوپورکے بعد سیب کی پیدوارمیں دوسرا سب سے بڑا ایریا ہے ۔کشمیر کے سیب باغات میں درختوں پر مئی کے مہینے میں سیب لگنا شروع ہوجاتا ہے اوراکتوبرکامہینہ اس کے توڑنے کا سیزن ہوتا ہے ۔ کشمیرکے سیب کوعالمی سطح تک لے جانے کے لئے سوپورمیں چار سو کنال کے وسیع رقبہ پر پھیلی فروٹ منڈی دوعشرے قبل قائم کی گئی تھی۔ لیکن ملت اسلامیہ کشمیر کے مطالبہ آزادی پرگزشتہ تین عشروں کے دوران بھارت جان بوجھ کرکشمیرکی سیب کوبرباد کر رہا ہے۔بھارت کی وضع کردہ ظالمانہ پالیسیوںکے نتیجے میں کشمیرکے سیب کودہلی کی منڈی میںاونے پونے بائو پرخریدگی کے باعث اسلامیان کشمیر سیب کودہلی کی منڈی میں بھیجنے کے بجائے اپنے باغات میں ہی سیب کو سڑا رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ دہلی کی منڈی میں سیب کو مفت بھیجنے سے بہتر یہی ہے کہ اپنے ہی سیب باغات میں یہ زمین بوس ہوجائے۔ بھارت کی مسلم دشمنی کے باعث دوسال قبل بھی اسلامیان کشمیرکی معیشت میں اہم انحصارکاحامل اورکشمیری مسلمانوں کی معاشی صورتحال میں ریڑھ کی ہڈی کادرجہ رکھنے والاایک کھرب اور 80 ارب پاکستانی روپے مالیت کے سیب باغات میں ہی ضائع ہوگیا تھا۔ یہ رقم آزاد کشمیر کے کل سالانہ بجٹ سے 60ارب روپے سے زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق2018 میںاس صنعت سے 1,956,331 میٹرک ٹن تازہ پھلوں کی پیداوار ہوئی اس کے علاوہ 205,405ٹن خشک میوہ جات کی پیداوار الگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت سے تقریبا 6000کروڑ روپے کا زرمبادلہ ریاست جموں و کشمیر کو آتا ہے جس سے آٹھ لاکھ خاندانوں کے چولہے جلتے رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق2018 ء میں سیب 1851723میٹرک ٹن ، ناشپاتی61191 میٹرک ٹن، خوبانی 16156میٹرک ٹن، آڑو2714 میٹرک ٹن،آلوچہ 7710میٹرک ٹن، چیری 11789میٹرک ٹن، انگور 790 میٹرک ٹن، بہی 3710 میٹرک ٹن کے علاوہ کئی دوسرے پھل پیدا ہوئے۔ خشک میوہ جات میں اخروٹ 195066 میٹرک ٹن کے علاوہ بادام اور دیگر میوہ جات باغبانی کی بڑی پیداوار ہیں۔ سری نگر کے اخبار رائزنگ کشمیر کے مطابق بھارت میں سیبوں کی کل پیداوار 27.5 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 18.5 میٹرک ٹن صرف کشمیر میں ہوئی۔ یعنی کل پیداوار کا ستر فیصد کشمیر میں ہوتا ہے۔کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکیٹ میں بھی پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں ۔ خطے میںبھارت کی مسلم دشمنی ،مسلمان کش پالیسی، خوف، نفرت اور وحشت کی، جو فصل برسوں پہلے بوئی گئی تھی آج وہ برگ و بار لا رہی ہے۔ اگر کسی کے پاس متاعِ لوح و قلم ہے اور وہ اس ماحول کی عکاسی کرنا چاہتا ہے، تو پھر اسے خونِ جگر میں انگلیاں ڈبونا پڑتی ہیں۔ چہار سو پھیلے اندھیرے اور کھولتے ہوئے اشتعال کے باعث قلم پر کپکپی طاری ہونا فطری ہے۔ زبانیں بولنے کے لیے بے تاب لیکن دستورِ زبان بندی ایسا کہ ہونٹوں سے لفظ پھسل پھسل کر اپنے معنی ہی کھو دیتے ہیں۔