تربت بلوچستان میں قتل کئے گئے سرائیکی مزدوروں کا کفن ابھی میلا نہیں ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 2 بم دھماکوں میں 6افراد شہید جبکہ اہلکاروں سمیت 21 افراد زخمی ہوئے ، ابھی قوم یہ آنسو پونچھ رہی تھی کہ بلوچستان کے علاقے پسنی سے اورماڑہ جانے والی سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 فوجی جوان شہید ہوگئے جس سے پوری قوم مزید صدمے سے دوچار ہو گئی اور ابھی قوم اس صدمے سے نکلی نہیں کہ گزشتہ روز علی الصبح دہشت گردوں نے پاکستان ائیر فورس کے میانوالی ٹریننگ ائیر بیس پر حملہ کر دیا ، خدا کا شکر ہے کہ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے یہ حملہ ناکام ہوا اور نودہشت گرد مارے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مشترکہ کلیئرنگ اور کومبنگ آپریشن آخری جاری ہے،ملک کی مسلح افواج طرف سے اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت کو ہر قیمت پر ختم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ پسنی حملے میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کی میتیں کراچی روانہ کی گئیں ، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے میتوں کو وصول کیا تو ہر طرف فضا مغموم تھی۔ تربت بلوچستان میں قتل ہونے والے مزدوروں کی لاشیں شجاع آباد آئیں تو وہاں رقت آمیز مناظر دیکھے گئے اور اس کے دو ہفتوں کے بعد اُسی تربت بلوچستان سے سرائیکی مزدوروں کی چار لاشیں کوٹ ادو لائی گئیں جنہیں دیکھ کر والدین حواس کھو بیٹھے اور آج بھی وہ صدمے سے نڈھال ہیں۔ بلوچستان کے علاقے پسنی میں شہید ہونے والے فوجی جوان بھی ہماری مائوں کے لخت جگر ہیں اور انہوں نے ملک دشمن دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ کے دوران شہادت پائی ہے، انہی کالموں میں ہم بار بار لکھتے آرہے ہیں کہ دہشت گردی کے ساتھ دہشت گردی کے اسباب کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔ پچھلے دنوں بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان باشندے ملوث ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جنوری سے اب تک پاکستان میں تقریبا 24 خودکش حملے ہوئے جس میں سے 14 میں افغان باشندے ملوث تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بلوچستان میں قلعہ سیف اللہ میں جو واقعہ ہوا، ان چھ میں افغان خودکش بمبار شامل تھے، اسی طرح ژوب کینٹ میں بھی پانچ میں سے تین افغان دہشت گرد تھے، ہنگو میں ہونے والے خودکش حملے میں بھی ایک افغان خودکش بمبار کی شناخت ہوئی۔ سرکاری ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کو مہمان بنایا گیا، اس مہمان نوازی کا جو صلہ ملا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، پاکستان خصوصاً سرائیکی وسیب میں غربت کے ستائے پر امن لوگ خود کشیوں پر مجبور ہوئے جبکہ نام نہاد افغان مہاجرین کی امداد کے لیے خزانے کے منہ کھول دئیے گئے۔ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں اعلان کیا تھا کہ 4 لاکھ افغانیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ بنا کر دیں گے ، اس پر میں نے انہی کالموں میں لکھا کہ آپ چار لاکھ کو شہریت دینے کا تکلف کیوں کر رہے ہیں ؟ افغان بارڈر کھول دیں اور تمام افغانوں کو آنے کی دعوت دیں ۔اس وقت سرائیکی وسیب کی طرف سے سرائیکستان قومی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے، تحریک انصاف مسائل حل کرنے کا دعویٰ لیکر آئی ، عمران خان کے فیصلے سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھیں گے اور پاکستان مسائلستان بنے گا اور ملک میں دہشت گردی کے خطرات بھی بڑھ جائیں گے کہ بیشتر افغان مہاجرین کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط میں ملوث ہونے کے خدشات ہیں ، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ر امریکی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی افغان حکومت کے ہاتھ آیا ہے لہٰذا بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے مگر ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کے واقعات کی تاریخ بھری پڑی ہے، زیادہ پیچھے نہیں جاتے صرف ایک سال پہلے کے واقعات کو لے لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وزیرستان اور بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں سینکڑوں بے گناہ پاکستانی شہری اور سکیورٹی فورسز کے جوان شہید ہو چکے ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دو بم دھماکوں نے ایک بار پھر وسیب کے لوگوں کو چونکا دیا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان دہشت گردی کے واقعات سے پہلے بھی بری طرح زخمی ہو چکا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ڈیرہ اسماعیل خان میں افغان مہاجرین کا سب سے بڑا کیمپ بنا اور ایم ایم اے کے دور میں جہاں مقامی پشتونوں نے زمینیں الاٹ کرائیں وہاں باہر سے آنے والوں کی بھی آباد کاری ہوئی جس سے مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ۔ مہاجرین کی آمد اور آبادکاری کا مسئلہ ہمیشہ حساس رہا ہے ، پناہ گزینوں کی تاریخ کو دیکھیں تو آسٹریلیا، کینیڈا ، امریکا ، سپین ، روس ، جرمنی وغیرہ کی تاریخ پناہ گزینوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، ایک وقت یہودیوں کو بھی پناہ گزین بننا پڑا اور فلسطینی مسلمانوں کو بھی لیکن سب سے بڑی ہجرت ہندوستان کی تقسیم کے وقت سامنے آئی اور تقریباً 70 لاکھ مسلمان پناہ گزین ہندوستان سے پاکستان آئے ، ہندوستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی داستان نہایت ہی دردناک ہے ۔ مقامی افراد کی کشادہ دلی سے ابھی وہ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ پیش آ گیا ، اس سانحے کے بعد ابھی ہم سنبھلے ہی نہ تھے امریکا اور روس کی جنگ پاکستان پر مسلط ہو گئی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ پاکستان پر آ پڑا ، افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور کرائم کی شرح بڑھی ،اس کا تذکرہ پولیس ،رینجرز اور تمام حساس اداروں کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے۔