پاکستان کی قومی اسمبلی میں کل سیٹوں کی تعداد 336ہے۔ جن میں 266سیٹوں پر براہِ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں یوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 192سیٹوں پر خواتین جبکہ 34نشستیں اقلیتوں کے لئے رکھی گئی ہیں۔ دوسر ے لفظوں میں 226 سیٹوں پر کسی بھی طرح کے الیکشن منعقد نہیں ہوتے بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے جیتنے والے اْمیدواروں کے تناسب سے اْنہیں مختص سیٹیں فراہم کی جاتی ہیں۔ عمومی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اِن سیٹوں پر اْن خواتین کو تعینات کرتی ہیں جو زیادہ تر سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یا پھر اْن خواتین کو موقع دیا جاتا ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ورکرز کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اقلیتی نشستوں پر تعیناتی عمومی طور پر اْن افراد کی ہوتی ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ مختص سیٹیں محض اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی کیلئے ہوتی ہیں تاکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق خواتین کو بھی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ تاکہ خواتین قومی سطح پہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی حوالوں سے قومی دھارے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکیں۔ خواتین کی نمائندگی کا اصلی مقصد خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے ملکی سطح پر کام کرنا بتا یا گیا تھا۔ مگر اِن سیٹوں پر سیاسی جماعتوں نے اپنی اْن خواتین کو ایڈجسٹ کرنا شروع کردیا جو کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہی ہیں۔ یا جن کے کلی طور پر سیاسی عزائم ہوتے ہیں۔ اگرچہ جنرل سیٹوں پر بھی جو سیاستدان ووٹ لے کر اسمبلی آتے ہیں، اْن میں بھی اکثریت کی تعداد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے فلور ز پر ہمیشہ خاموش ہی پائی جاتی ہے۔ محض چند سرکردہ سیاسی رہنماء اسمبلی فلور پرمختلف سیاسی،سماجی و معاشی معاملات پر بولتے ہیں۔ اِسی طرح مخصوص خواتین جو ہر طرح سے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ جذباتی واستگی رکھتی ہیں اْنہیں بولنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اقلیتی رہنماؤں کی طرح مخصو ص نشستوں پر تعینات خواتین بھی خال خال ہی بولتی نظر آتی ہیں۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں پر تعینات خواتین رہنماء اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ یاتو خواتین کو اسمبلی فلور پر بولنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور اگر ایسا ہو تو وہ زیادہ تر اپنی پارٹیوں کے منشور اور رہنماؤں کے تمام اعمال کا دفاع کرتی ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایک چھوٹی سی آئینی تبدیلی کے ذریعے اِن مخصوص نشستوں پر تعینات ہونے والی خواتین کی قابلیت، اہلیت، تجربہ اور تعلیم کو ملحوظ ِ خاطر رکھا جائے؟ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ذاتی پسند نہ پسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے جذبہِ خدمت پاکستان کو مدِ نظر رکھا جائے۔ اور اپنے اپنے شعبہ جات میں یکتا خواتین کو اِن مخصوص نشستوں پر تعینات کیا جائے؟ اگر واقعی اِسی جذبے کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی رکھی گئی ہے۔ تو پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ معیشت، سیاسیات، سماجی خدمت، سماجیات،مذہب، ثقافت، موسیقی، فلم، میڈیا،صحت، تعلیم، معاشرت اور دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو سامنے لایا جائے؟ یقیناً ایسا ممکن ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں اور اْن جماعتوں کے رہنماؤں کی نیت درست ہوجائے تو ایسا یقیناً ممکن ہے۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو پارلیمنٹ میں صحیح معنوں خواتین کی نمائندگی ممکن ہوسکے گی اور دوسری طرف ہر محنتی خاتون کو حوصلہ ملے گا کہ اگر وہ محنت و لگن سے اپنے شعبہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیتی ہے تو عین ممکن ہے اْسے قومی سطح پر خواتین کی نمائندگی کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔ یہ صرف خواتین کے لئے لاگو نہیں کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہ صنفی امتیاز ہوگا۔ ایسا طریقہ ِ کار جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے والوں کے لئے بھی اپنایا جانا چاہئے تاکہ ہم اِس وطن عزیز کو سبھی حوالوں سے آگے لے جائیں۔ اِس عظیم مقصد کیلئے بھی ایک چھوٹی سی آئینی تبدیلی لانا ہوگی۔ مگر چونکہ مخصوص نشستوں پر محض پسند نہ پسند کی بنیا د پر تعیناتی کی جاتی ہے۔ مختص نشست پر تعینات خاتون اگر پارلیمنٹ فلور پر ایک لفظ بھی نہیں بولتی تو یہ سیدھا سادھا ملک و قوم کے ساتھ ظلم ہے کہ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کے نام پر ایک نشست پر ایسی تعیناتی کردی جائے جس کا مقصد محض پارلیمنٹ آکر خاموش رہنا ہو اور پانچ سال میں صرف تب اْسے اہمیت دی جائے جب صدر،وزیراعظم، سینیٹر، سپیکر، ڈپٹی سپیکراور دیگر آئینی عہدوں پر تعیناتی کیلئے اْس کا ووٹ درکار ہو۔ یہ واقعی ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر واقعی مخصوص نشستوں پر خواتین کو تعینات کرکے خواتین کو بااختیار بنانا ہمارا مقصد ہے۔تو پھر یہ ملک کی آدھی آبادی کے ساتھ مزید زیادتی ہے کہ اہل خواتین کو اسمبلی فلور پر اِس لئے نہیں لایا جاتا چونکہ اْن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی۔ اور اْن خواتین کو تعینات کیا جاتا ہے جو سیاسی ورکرز تو ہوتی ہیں مگر زندگی کے شعبہ ہائے جات کے متعلق اْن کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی جماعتیں ’عارضی نظامِ حکومت‘ کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کررہی ہیں اور ایک آئینی ترمیم لانے کی بات چل رہی ہے تاکہ کبھی بھی عارضی حکومت لانے کی نوبت ہی نہ آئے۔اِس کا مقصد ووٹر اور نظامِ حکومت کا اعتماد بحال کرنا بتایا جارہا ہے۔ بالکل اِسی طرح اِس قومی مسئلے کی طرف توجہ دینا ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا مقصد اپنی بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کو بااختیار بنانا ہے۔ اِس لئے اْنہیں وہ رول ماڈل خواتین دکھائی جائیں اور اْن رول ماڈل خواتین کو عوامی سطح پر اپنی خواتین کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا جائے جنہوں نے اپنے شعبہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہوں۔ یہ ممکن ہے۔یہ واقعی ممکن ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف قومی سطح پر ہم اپنی خواتین کو باوقار انداز میں منظر ِ عام پہ لاسکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی بااختیار خواتین کا چہرہ لاکر عالمی منظر نامہ پر اپنے مثبت اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔