ملتان ہزاروں سال سے علم و ادب اور صنعت و حرفت کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملتان میں محمود غزنوی نے جنگ کے دوران بہت قتل و غارت کی مگر ہنر مندوں کو نہ صرف باقی رہنے دیا بلکہ ان کو غزنی لے گیا جس کے باعث غزنی میں بھی ہنر مندی کا آغاز ہوا۔ ملتان ہزاروں سال سے تہذیب و ثقافت کا گہوارا چلا آ رہا ہے ، آج کا ملتان دنیا بھر میں کئی حوالوں سے مشہور ہے جن میں ملتان کی سرزمین پر آسودہ خاک اولیا ء و صوفیا، ملتانی کاشی گری ،ملتانی سوہن حلوہ، آم کے باغات اور ظروف سازی، چمڑے کے دیدہ زیب کھسے، کمنگری، اونٹ کی کھال سے بنے لیمپ شیڈ، کڑھائی شدہ کرتے اور دوپٹے، ملتانی کھیس، ریشمی لنگیاں، مجسمے، تیل دھنیا، کاشی کی اینٹیں ہیں۔ لیکن یہاں میں ملتان کی جس صنعت کا ذکر کروں گا وہ خالص ملتانی ہے اور یہیں سے پورے ملک تو کیا پوری دنیا میں مشہور ہوئی اس صنعت کا نام ملتانی بلیو پاٹری ہے۔ جو کہ ملتانی کاریگروں کے فن کا اعلیٰ نمونہ ہے،اگر حکومت توجہ دے تو یہ بہت بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر سکتی ہے ۔ سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے ملتان میں ہونے والے سرائیکی فوڈز فیسٹیول کے کرافٹ بازار میں موجود ملتانی ہنر مندو ں کے شاہکار توجہ کا مرکز بنے رہے۔ سرائیکی فوڈز فیسٹیول میں شریک کمشنر ملتان ڈویژن عامر خٹک ، ڈپٹی کمشنر ملتان رضوان قدیر، ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے زاہد اکرم، سیکرٹری سروسز ملتان سول سیکرٹریٹ امجد شعیب، ڈپٹی کلکٹر کسٹمز مریم جمیلہ کا کہنا تھا کہ ہم اس خطہ کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے ۔ کرافٹ بازار ملتان کے روح رواں ملک عبدالرحمن نقاش کا خاندان کئی نسلوں سے اس فن کی خدمت کر رہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے مقابلوں میں اول انعام بھی حاصل کر چکا ہے۔ایک وقت میں ملتان کے دستکاروں کے شاہکار بیرون ملک بھیجے جاتے تھے اور اس سے سلطنت ملتان کو کثیر آمدنی ہوتی تھی، یہ پل دو پل کی بات نہیں بلکہ ہزاروں سال کا قصہ ہے کہ جب فن ظروف سازی نے ایک نئی کروٹ لی اور تقریباً 3ہزار سال قبل مسیح میں ہنر مندوں نے اس پہیے کو ایک نئی شکل میں ڈھال کر مٹی کو اس پر نچانے کی ابتدا کر دی۔ کمہار کے ہاتھوں نے اس پہیے پر جادو دکھانا شروع کیا اور چھال یعنی ’’پوٹرز وہیل‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے کمہار کی آنکھ کا تارہ بن گیا، وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں ۔ہنر مند تو ایک لفظ ہے دراصل وہ سائنسدان بھی تھے اور ایجادات کے لیے نت نئی ترکیبیں استعمال کرتے اور خوب سے خوب چیزیں تخلیق کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے۔ انسانی تاریخ میں صدیوں پہلے سے مٹی کو حسن پرستی، جمالیاتی ذوق اور کاری گری کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے پھر چاہے وہ مجسمہ سازی کا فن ہو، تعمیری شاہکار ہوں یا فن بت سازی، یہ مٹی کب سے مختلف اشکال میں انسانی ذوق کی تسکین کا باعث بنتی آ رہی ہے۔ موہنجوداڑو، بابل اور ہڑپہ کی قدیم تہذیبیں بھی مٹی کو برتن بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں، چنانچہ اگر مٹی سے ظروف بنانے کے فن کو قدیم ترین فنون میں سے ایک کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا،اس موقع پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ملتان سے مراد ایک شہر نہیں بلکہ یہ قدیم خطے کا نام ہے ،اگر چند ہزار سال قبل کے پس منظر میں جائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صدیوںسے تمدن کا مرکز ملتان ہی تھا اور ملتان نے ہی ظرف سازی سمیت علم و حرفت میں دنیا کی پیشوائی کی ۔ آج بھی ظروف سازی کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک اور ثقافت کا حصہ ہے لیکن ماضی میں چینی قوم اس ضمن میں سب سے پہلے منظر عام پر آئی۔ چینیوں نے پورسلین اور ظروف کے روغن دریافت کیے اور اس سے برتن بنانے شروع کر دیئے لیکن ان کے برتن نیلے رنگ کے بغیر بہت پھیکے لگتے تھے۔ پھر ایرانی سلطنت میں ’’کوبالٹ آکسائیڈ‘‘ کی دریافت نے تہلکہ مچا دیا، اس کو مٹی کے برتنوں پر روغن کے طور پہ مَلا جاتا تھا جو بھٹی میں تپنے کے بعد خوبصورت اور چمکتے ہوئے نیلے رنگ میں بدل جاتا تھا۔ آج ایران میں جن نیلے برتنوں کو سنگینہ کہا جاتا ہے اور جسے انگریز بلیو پاٹری کا نام دیتے ہیں اور یہ چین کے شہر کاشغر کے حوالے سے جو ظروف سازی کاشی کے نام سے مشہور ہے۔نیل کی کاشت کا مرکز ملتان رہا ہے اور وسیب میں نیل گڑھ ، نیل کوٹ کے قدیمی ناموں سے شہر اور قصبے آج بھی آباد ہیں۔ ملتان کا علاقہ ٹھٹھہ پاولیاں جسے آج ٹھٹھہ صادق آباد کہا جاتا ہے یہ نیل کی بہت بڑی منڈی تھی یہاں سے نیل بیرون ممالک بھجوایا جاتا ۔ بلیو پاٹری سے وسیب کا رشتہ کتنا قدیم ہے اس کا ثبوت 1853ء میں قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کی کھدائی کے دوران اس وقت ہوا جب 9 ویں صدی میں سر الیگزینڈر کو نیلے رنگ سے بنائی گئی ٹائلیں دریافت ہوئیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملتان میں عمارتوں اور برتنوں پر نیلے رنگ کی نقاشی کی روایت قدیم عہد سے چلی آ رہی ہے، اس فن کیلئے نیلے رنگ کا ایک خاص روغن تیار کیا جاتا ہے، کاشی گری کے فن میں دوسرے رنگوں کا استعمال بہت ہی کم ہوا ہے اور غالباً کامیاب بھی نہیں ہو سکا، کاشی گری اصل میں مٹی اور دھاتوں کے ایک خاص مرکب سے بنائے گئے برتنوں پر نیلگوں نقش و نگار بنائے جانے کو کہتے ہیں۔ ملتان اور سندھ کی تہذیب و تاریخ میں نیلے رنگ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ’اجرک جو سندھ اور ملتان کا تہذیبی پہناوا ہے‘ کی رنگائی بھی نیل سے ہی کی جاتی تھی ’ملتان میں سر ڈھانپنے کی ایک مخصوص چادر کو ’’نیلا‘‘ کہا جاتا تھا،دریائے سندھ کا پرانا نام بھی ’’نیلاب‘‘ ہے۔ اس خطے میں پڑنے والی شدید گرمی نے بھی نیلے رنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ نیلا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے، سو نیلا رنگ اب ملتان وسیب کی پہچان بن چکا ہے۔