اَقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (COP27)مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں 6 نومبر سے 18 نومبر 2022 تک منعقد ہو رہی ہے۔ COP کا مطلب فریقین کی کانفرنس ہے، اور اِس سَمٹ میں وہ ممالک شرکت کر رہے ہیں جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (UNFCC) پر دستخط کیے تھے۔ UNFCC ایک معاہدہ ہے جو 1994 میں نافذ ہوا تھا۔ اِس عمل کے 198 ارکان ہیں اور وہ کانفرنس کے فریقین کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ اِس معاہدے کا سب سے حالیہ رکن ہولی سی ہے جو 2022 میں ممبر بنا ہے۔ پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان آنے والی کانفرنس کے اہم حصے یعنی سربراہان مملکت و حکومت کی بات چیت کے سیشن کی مصری صدر اور ناروے کے وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ صدارت کریں گے۔ جی 77 + چین کے سربراہ کے طور پر، پاکستان COP-27 کے بنیادی مباحثوں میں موسمیاتی مالیاتی انصاف اور نقصانات کے مسائل کو اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔ حال ہی میں، پیٹرزبرگ ڈائیلاگ میں، نقصانات کے مسائل پوری گفتگو کے ایجنڈے کا مرکز تھا۔ آب و ہوا کی بین الاقوامی کانفرنس COP26 31 اکتوبر سے 12 نومبر 2021 تک گلاسگو میں ہوئی جسکے بنیادی اَہداف میں وسط صدی تک عالمی "خالص صفر" کو محفوظ بنانا اور حد سے زیادہ 1.5 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو رسائی میں رکھنا تھا۔ "خالص صفر" کا مطلب ہے کہ کل اخراج ماحول سے خارج ہونے والے اخراج کے برابر یا اس سے کم ہیں۔ کانفرنس کے دیگر اہداف میں کوئلے کے فیز آؤٹ کو تیز کرنا اور موسمیاتی فنانس کے لیے سالانہ کم از کم 100 بلین ڈالر کو متحرک کرنا شامل ہے۔ تقریباً 200 ممالک کے درمیان 13 دن کی بات چیت کے بعد، گلاسگو موسمیاتی معاہدے پر دستخط کیے گئے جبکہ پیرس معاہدے کی "رول بک" مکمل ہوئی۔ 2015 کے پیرس معاہدے نے دنیا کے ہر ملک کو اِس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے اپنے اہداف کا تعین کرنے کی صلاحیت فراہم کی۔ نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کیے گئے۔ اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب دنیا بھر کے ممالک نے میتھین کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے اِجتماعی طور پر نمٹنے کا عہد کیا۔ تاہم ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس اِجتماعی عہد پر کاربند رہتے ہوئے اَمریکہ اور چین سمیت دنیا کے بڑے صنعتی ممالک کس حد تک عملی اقدامات اِختیار کررہے ہیں۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی بحران زیادہ سنگین صورت اِختیار کرتا جا رہا ہے جس کی مثال پاکستان میں ہونے والی اِس سال کی بے مثل مون سون بارشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو درپیش آب و ہوا کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے منصفانہ آب و ہوا کے لیے مالی اعانت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کو غیر معمولی موسمیاتی واقعات کا سامنا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ کو انتہائی درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کا 1% سے بھی کم اخراج کرتا ہے لیکن پھر بھی دنیا کے بڑے صنعتی ملکوں کی گیسوں کے ذریعے کی جانے والی سرگرمیوں کے نتائج بھگت رہا ہے۔ اَقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ چونکہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج پوری عالمی فضا اور سمندروں میں گھل مل جاتا ہے، اِس لیے دنیا کے ایک حصے میں اخراج ہر جگہ آب و ہوا کو متاثر کرتا ہے۔ پیرس معاہدہ تمام ممالک سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو اپنے اپنے ترقیاتی اہداف اور سیاسی حقائق کے مطابق کم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ تاہم، وسط صدی تک خالص صفر اخراج کا ہدف حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس اخراج کرنے والے ممالک کا تعاون ضروری ہے۔ اِس وقت عالمی سیاست کا مرکز بہت حد تک اَمریکہ اور چین کے مابین معاشی مسابقت اور سیاسی و جغرافیائی میدان میں مقابلہ ہے۔ اَمریکہ اور چین کے درمیان عالمی سیاست میں حاوی ہونے کے لیے دوڑ جہاں ایک طرف یوکرائن جیسے اِیشوز کو متاثر کرتی ہے وہیں دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی جیسے بنیادی اور ہنگامی اِیشوز بھی شدید متاثر ہوتے ہیں جس کی بھاری قیمت پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں کو چکانا پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ چین اور اَمریکہ گرین ہاؤس گیس اَخراج کرنے والے ملکوں میں سرِفہرست ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتیں ہونے کے ساتھ، گرین ہاؤس گیسوں کے سب سے بڑا اخراج کرنے والے ملک ہونے کے ناطے، امریکہ اور چین کے اقدامات عالمی کارروائی کو آہستہ یا تیز کر سکتے ہیں۔ باالخصوص اگر اَمریکہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے جسے باقی دنیا سنجیدہ سمجھتی ہے، تو اس کے لیے دوسرے ممالک پر زیادہ سنجیدہ اقدام کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا مشکل ہوجائے گا۔ 2017 میں اَمریکی صدر ٹرمپ کے پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے تناظر میں عالمی ماحولیاتی برادری سے چار سال تک امریکہ کی غیر موجودگی خاص طور پر عالمی ماحولیاتی مذاکرات اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے جہاں اَمریکہ کا دوغلا پن آشکار ہوا ہے وہیں اَمریکہ کے عالمی رہنما کے طور پر اِمیج اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 2019 میں، اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں عالمی کاربن کے 28 فیصد اخراج کے ساتھ چین سرفہرست تھا، جبکہ 15 فیصد اخراج کے ساتھ امریکہ دوسرے نمبر پر تھا۔ اَمریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اور اَمریکہ کے مابین اِقتصادی اور تکنیکی مسابقت دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں پر منفی طور پر اَثراَنداز ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز بری ہو۔ سپر پاورز کے درمیان مقابلہ ڈی کاربنائزیشن کے اقتصادی اور تکنیکی راستوں کی نشاندہی میں پیشرفت کو تیز کرسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اَمریکہ اور چین دونوں کو تعاون بڑھانے اور باقی دنیا کے ساتھ اپنی وابستگی کا اشارہ دینے کا موقع فراہم کرتی ہے، چاہے دیگر شعبوں میں عداوت برقرار رہے۔