دل تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب کے دورہ امریکہ کی کیمسٹری اور فزکس پر کچھ بات کرتا یا پھر میرے سرہانے پڑی اوریانا فلاشی کی کتاب ’’تاریخ سے مکالمہ‘‘ پر لکھتا مگر نہ جانے کیوں ایک مستقل یاسیت نے غلبہ پا لیا۔ اس دنیا پر کون حکومت کرتا ہے؟ کیسے حکومت کرتا ہے اور کیونکر حکومت کر رہا ہے۔ تعلق اس کا بھی امریکہ ہی سے ہے مگر کسی اور طرح سے۔ سچ جانیں تو ہزاروں معصوم اور بے گناہ بچوں کے قتل نے طبیعت اداس اور مکدر کر رکھی ہے۔ سنگدل دانشور کہتا ہے ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ میں نے اسے کہا کہ تم سے زیادہ عالمی تعلقات کی تھیوریاں ازبر ہیں مگر یہ جارحیت۔ صرف ننگی ہی نہیں بے شرم بھی ہے۔ وہ جو ایسا کر رہے ہیں انہیں کس کی سرپرستی حاصل ہے؟ ساری دنیا کے عوام (مسلم غیر مسلم) سراپا احتجاج میں مگر لاشیں گر رہی ہیں۔ اجتماعی قبریں۔ کھد رہی ہیں رونے کی بھی فرصت نہیں ان کے پاس کہ انہیں دفنانے جانا ہے۔ بس دفنانے جانا۔ بظاہر روس بھی ہے۔ چین بھی اور تمام مسلم امہ بھی۔ مگر ملک ایک ہی ہے۔ وہ ہے امریکہ اور امریکہ کا مطلب ہے اسرائیل …ان دونوں کے اتحاد کا کیا مطلب ہے؟ لکھنا ثواب سہی مگر جھیلنا عذاب ہو جاتا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی… اس کے اندر کی فیصلہ سازی اس کانگرس‘ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ایوان صدر اور پینٹا گون پھر اس کا لابنگ سسٹم‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا نیٹ ورک اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کیسے آپریٹ ہوتا ہے جو ہم پہ گزری سو گزری۔ مگر شب ہجراں ۔ ہمارے اشک تیری داستان سنانے چلے۔ فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ۔ دنیا میں تقریباٰ ایک ہزار کے قریب ارب پتی ہیں یہ سب مل کر سرحدوں کو خاطر میں لائے بغیر ہر جگہ کھیلتے ہیں۔ امریکہ کے بعض ایسے طاقتور خاندان ہیں جو ان ارب پتیوں کے بھی بادشاہ ہیں۔ راک فیلر خاندان ‘ راتھس چائلڈ خاندان‘ سب جنگیں۔ ساری جارحیت کے پیچھے اقتصادی اور سٹریٹجک مفادات ہوتے ہیں۔ارب پتیوں کے کلب کے گاڈ فادر امریکہ میں بستے ہیں۔ وہ بہت متعصب اور اینٹی مسلمان ہیں۔ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں فلاں جنگ چھیڑی جائے۔ فلاں ملک پر حملہ کر دیا جائے۔ اس ملک کے وسائل پر قبضہ کر لیا جائے یا پھر ان ملکوں کو اکٹھا کر کے اس طرح کا اتحاد بنا لیا جائے۔ امریکی سرمایہ کار بنکوں کے مالک ہیں اسلحہ انڈسٹری چلاتے ہیں تیل اور گیس کمپنیاں ان کی ہیں۔ بہت نشہ آور حقیقت ہے کہ میڈیا بھی ان کی راجدھانی ہے۔ جنگ کب ہو گی؟ کہاں پر ہو گی امن کب ہو گا۔ کہاں پر ہو گا؟ اس کے فیصلے ارب پتیوں کے کارٹلز کرتے ہیں۔ان کی کارروائیوں کو کبھی بھی عام لوگوں کی دسترس میں نہیں دیا جاتا۔9/11کے وقت امریکہ کے ایک صدر ہوتے تھے۔ حضرت بش۔ ان کے ساتھ تھے رمز فیلڈ۔ ان کے قریب ہی موجود ہوتے تھے ڈک چینی۔ افغانستان۔ عراق کویت سعودیہ۔ کون ان کی دست برد سے محفوظ رہا۔ ایران بھی ان کے مطابق برائی کا محور تھا۔ ان چہروں کے پیچھے کون لوگ تھے؟ آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کو پتہ ہے۔ ایک امریکی سکالر کے مطابق صدر بش سے موجود صدر جوبائیڈن تک صرف چہرے ہیں۔ ان کے پیچھے جو مافیاز ۔ کارٹلز۔ گاڈ فادرز ہیں انہیں آپ جان لیں تو صدمے ہی کی طاقت سے مر جائیں۔ وہ آپ کو جان لیں تو آپ مر جائیں۔ جان ایف کینیڈی کے پراسرار قتل کے بعد زیادہ امریکی صدور ان ہی کے تابع ہوتے ہیں۔ جو انحراف کرتا ہے اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ پھر کبھی سہی۔ مگر آج کے جو بائیڈن تک۔ سلامتی کونسل میں سیز فائر کی قرار داد کیوں منظور نہیں ہو رہی؟ پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس کے پیچھے ان تھنک ٹینکس کی سوچ ہے جو امریکی سرمایہ داروں۔ کارٹلز اور مافیاز کے تنخواہ دار ہیں۔ امریکہ کے ایک قومی سلامتی کے مشیر ہوا کرتے تھے۔ نام تھا ان کا برزنسکی ۔ ان کی کتاب کا نام تھا۔ دی گرینڈ چیس بورڈ۔ اس میں امریکہ کے دنیا کے تمام ممالک پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ نظر آتی ہے۔ یہ امریکی سرمایہ داروں کی خیالات ہیں۔برزنسکی یہ بھی کہتا ہے کہ امریکہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایران روس اور چین کبھی اکٹھے نہ ہوں اس ٹولے کے ایک رکن ڈک چینی کی جلد بازی نے کام بگاڑ دیا۔ اس لئے یہ تینوں ممالک اس وقت اکٹھے ہی ہیں۔ امریکہ میں کچھ ایسی فائونڈیشنز ہیں جن کا کام ہے۔ واضح طور پر بتانا مشکل ہے فورڈ فائونڈیشن ۔ کارنیگی فائونڈیشن ۔ راک فیلر فائونڈیشن ان کا بنیادی فریضہ کچھ اور ہے مگر یہ بتاتے کچھ اور ہیں۔نوم چومسگی جیسے سکالرز کے مطاق یہ ادارے حقیقت میں دنیا کے امیر ترین خاندانوں کی اصل دولت کو چھپانے اور اس دولت کے ذریعے دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بنائی گئے ہیں۔ یہ دنیا کے کمزور اور چھوٹے ملکوں کو عام طور پر اور مسلمان ممالک کو خاص طور پر اپنی معاشی محبت اور سخاوت سے مسخر کرتے ہیں۔ ان کارٹلز اور مافیاز کو سکالرز امریکی elitesکا نام دیتے ہیں یہ کلب اپنے وسائل اور طاقت کے اعتبار سے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ دنیا کا کوئی سٹیٹ ایکڑ یا نان سٹیٹ ایکڑ ان سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ یہ امریکی افواج۔ ناٹو۔ سیکرٹ سروس۔ سی آئی اے۔ سپریم کورٹ اور نچلی عدالتوں تک سیاہ اور سفید کے مالک ہیں۔ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کے پاس بے شمار تھنک ٹینک ہیں جو شب و روز ان کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ بلڈرز برگر گروپ ‘ کونسل آف فارن ریلیشنزاور ٹرائی لیٹرل کمیشن ان کے تین اہم ترین ادارے ہیں۔ امریکیوں کے علاوہ جاپانی اور یورپی ارب پتی بھی ان اداروں کا حصہ ہیں۔ ریسرچ کے مطابق یہ وہ ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ جنگ کب شروع ہو گی؟ کہاں شروع ہو گی کون سے ملک اس میں حصہ لیں گے؟ جنگ کے لئے پیسے کون دے گا؟ جنگ کے اختتام پر برباد شدہ علاقوں کی تعمیر نو کا ٹھیکہ کس کو ملے گا ؟ جنگ ختم ہونے کے بعد کون سے ملک کی سرحد میں کیا تبدیلی واقع ہو گی۔ فلاں ملک کا آرمی چیف کون ہو گا۔ جن ملکوں کے ساتھ مفاد وابستہ ہے ان کے صدر۔ وزیر اعظم اور چانسلر کون ہوں گے۔ ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینی ہے یا نہیں‘ سٹاک مارکیٹ، بینک اور میڈیا کی کہانیاں الگ ہیں۔ حقیقت اور فریب نظر کی یہ کہانیاں بہت طویل اور دلچسپ ہے۔ یہ خیال ہے کسی او کا۔ اسے سوچتا کوئی اور ہے۔