فرخ سہیل گوئندی میرا دوست ہے، خود کو سات ہزار برس سے راجپوت کہتا ہے، ہر اس ’’دھرتی پرست‘‘ کی طرح جو کسی بھی سرزمین سے اپنا آبائی رشتہ اس کائنات کی تخلیق کے دور سے جوڑتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود اس سرزمین پر قابض ہوئے ہوتے ہیں اور انہوں نے یہاں پر ان سے پہلے بسنے والے لوگوں کو یا تو قتل کیا ہوتا ہے یا پھر انہیں مار بھگا کر ان کی ’’دھرتی ماتا‘‘ پر قبضہ کر کے اسے زبردستی اپنی ماں بنا لیا ہوتا ہے۔ سندھی اپنا رشتہ موہنجوداڑو سے جوڑتے ہیں، حالانکہ اس وقت جو لوگ بھی سندھ میں آباد ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کا تعلق موہنجوداڑو کو آباد کرنے والے عظیم لوگوں کی نسل سے ہو۔ اسی طرح بلوچ جو زیادہ سے زیادہ دو ہزار سال پہلے حلب سے آ کر اس خطے میں آباد ہوئے تھے، وہاں موجود سات ہزار سال پرانی مہر گڑھ تہذیب سے اپنا تعلق استوار کرتے ہوئے قوم پرست سے زیادہ ’’دھرتی پرست‘‘ بن جاتے ہیں۔ پنجابیوں کا بھی کوئی تعلق ہڑپہ کی تہذیب سے ہے اور نہ ہی پشتون اپنا کسی بھی قسم کا کوئی رشتہ تخت بھائی میں بسنے والے قبل مسیح دور کے افراد سے ثابت کر سکتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر نسل کے لوگوں کو رہنے، کھانے پینے یا گھر بنانے کے لئے ایک زمین چاہئے ہوتی ہے، ایسی زمین جو انہیں پینے کے لئے پانی فراہم کرے اور ان کے جانوروں کے لئے گھاس۔ انہیں جہاں پر بھی ان دو وسائل سے مالا مال سرزمین مل جاتی ہے، یہ اس پر قابض ہو جاتے یا وہاں پر پہلے سے آباد لوگوں کو مار بھگاتے اور اسے اپنا وطن پکارنے لگتے ہیں۔ یہ وطن، یہ دھرتی، یہ ’’ماتا‘‘ ان سب الفاظ سے انسانوں کا رشتہ ہمیشہ انتہائی کمزور رہا ہے۔ جب کبھی اس دھرتی ماں نے انسانوں کے لئے پینے کا پانی اور جانوروں کے لئے گھاس اُگانا بند کی ہے، اس ’’دھرتی ماں‘‘ کے بیٹوں نے ایسی ’’خشک سال‘‘ ماں کو خیرباد کہا جس کے سوتے خشک ہو گئے تھے اور کسی دوسرے کی ماں کو فتح کرنے چل نکلے۔ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی کوئی شخص اس ’’دھرتی ماتا‘‘ کے ساتھ قحط، بیماری، زلزلے، طوفان، آفت یہاں تک کہ بیروزگاری میں بھی نہیں رہا۔ ذرا پریشان ہوا تو اپنا سامان سر پر لادا اور کسی دوسری دھرتی کی سمت رختِ سفر باندھ لیا۔ اگر نئی سرزمین پر کامیاب ہو گیا، غلبہ حاصل کر لیا تو پھر اسی دھرتی کو اپنی ماں بنا لیا، لیکن اگر وہاں کمزور سی اقلیت میں زندگی گزارتا رہا تو اپنی پرانی ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ فرخ سہیل گوئندی کا سرگودھا ابھی تک سرسبز ہے اور اسے مستقل ہجرت نہیں کرنا پڑی۔ اسی لئے وہ اسے سات ہزار سال پرانا وطن کہتا ہے۔ حالانکہ محکمہ آثارِ قدیمہ والوں نے اس خطے میں کسی بھی قسم کے قدیم تہذیبی آثار ابھی تک نہیں ڈھونڈے۔ انگریز نے نہری نظام بچھایا تو دریائوں کو دُور تک پھیلا دیا۔ انسان پانیوں کے ساتھ بستیاں بساتا تھا۔ سارے بڑے شہر دریا کے کنارے ہی آباد ہوئے۔ لیکن نہر کی صورت جب دریا سرگودھا میں داخل ہوا تو انسان نے وہاں پر موجود جنگل میں لاکھوں سال سے رہنے والے درندوں، چرندوں اور پرندوں کے مسکنوں کو اُجاڑ کر لہلہاتے کھیت آباد کئے اور نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہا یہ ہمارا سات ہزار سال پرانا وطن ہے۔ فرخ سہیل گوئندی کا سرگودھے سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا سردیوں میں سائبیریا سے آنے والی مرغابیوں کا سرگودھا کے آس پاس سون سکیسر کی جھیلوں سے ہوتا ہے، جو سائبیریا کے موسم کی سردی برداشت نہیں کر پاتیں تو بہتر موسم، پانی اور سبزے کی وجہ سے اس مستقل سالانہ ٹھکانے پر لوٹ آتی ہیں۔ جیسے ان مرغابیوں کے سرمائی اور گرمائی دو وطن ہوتے ہیں ویسے ہی فرخ سہیل کے بھی دو وطن ہیں۔ حالات کمزور ہوں تو پاکستان اور اپنا پبلشنگ کا دھندہ اور حالات بہتر ہوں تو دنیا بھر کی سیر۔ وہ ایک جہاں گرد ہے اور اسی جہاں گردی کی وجہ سے اسے لبنان سے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قوم سے جیون ساتھی میسر آیا۔ عرب دُنیا کے رہنے والوں کو یہ رشتہ بہت عجیب لگتا ہے۔ اسی لئے جب اسے اپنی بیوی کے ساتھ کسی عرب ملک میں داخل ہونا پڑتا ہے تو امیگریشن والے اسے حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہیں۔ وہ عرب جن کی کئی نسلیں ایران، ماورائے النہر، شام اور مصر کی خواتین کو حلقۂ زوجیت میں داخل کرتے ہوئے یا کنیزانِ حرم بناتے ہوئے گزریں ہوں، انہیں میرے دوست اور نسلاً راجپوت کا یہ اُلٹا چلایا گیا پہیہ اچھا نہیں لگتا۔ گوئندی عہدِ جوانی سے سیاست دان چلا آ رہا ہے، لیکن پاکستانی سیاست کی ’’سرمایہ دارانہ بصیرت و بصارت‘‘ سے تنگ آ کر اس نے کتابیں چھاپنا شروع کیں اور اس قوم پر یہ احسان کیا کہ بڑی بڑی کتابوں کے اُردو میں تراجم شائع کئے۔ نوم چومسکی کی تمام کتب اس نے شائع کیں اور اسے دیانت داری سے رائیلٹی بھی دی۔ اس نے شیخ مجیب الرحمن کے قاتل میجر دالیم کی کتاب شائع کی۔ اس لئے وہ دُنیا بھر میں بے دھڑک جا سکتا ہے، لیکن بنگلہ دیش نہیں جاتا کہ کہیں پکڑ کر حکمران یہ نہ پوچھ لیں کہ ’’کہاں ہے دالیم‘‘، اور اسے یقین ہے کہ پاکستان سے اسے کوئی چھڑانے نہیں آئے گا۔ گوئندی نے کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ لکھی بھی ہیں اور وہ بہت خوبصورت لکھتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ نثر اچھی لکھتا ہے بلکہ اس کی کتابوں کا ہر صفحہ آپ پر معلومات کا ایک جہان کھول دیتا ہے۔ اس جہاں گرد نے اپنا پہلا سفر نامہ ’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ کے نام سے تحریر کیا ہے۔ یہ سفر تین ممالک کا ہے۔ ایران، ترکی اور بلغاریہ۔ تینوں ممالک اپنے کلچر، تہذیب اور سیاسی نظام کے حساب سے بالکل الگ ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی کا یہ سفرنامہ عام سفر ناموں کی طرح گاڑیوں، کشتیوں، دُکانوں، قہوہ خانوں اور راہ چلتی محبوبائوں کی داستانوں والا سفرنامہ نہیں، بلکہ اس کے ہر صفحے پر تاریخ کے نقوش جڑائو موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ایران اور ترکی کے سفرنامے تو آپ کو جابجا مل جائیں گے، لیکن بلغاریہ کے ملک سے ہمارے اکثر سفرنامہ نگار یورپ جاتے ہوئے بس خاموشی سے ہی گزر جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بلغاریہ کا سفرنامہ نہیں ملے گا۔ ترکی تو ویسے ہی گوئندی کا دوسرا گھر ہے۔ وہ ترکی کے سابق وزیر اعظم بلند ایجوت کے ذاتی دوستوں میں سے تھا۔ اتاترک کا ’’جدیدیت پرست‘‘ لوگوں کی طرح مداح ہے، لیکن اپنا تعصب اس نے سفرنامے میں نہیں آنے دیا۔ اس کی اسی خوبی کی وجہ سے وہ میرے جیسے شخص کا بھی گہرا دوست ہے جو اتاترک سے شدت کے ساتھ نفرت کرتا ہے۔ میں نے کوئی راجپوت اتنا وسیع القلب نہیں دیکھا۔ ایران کو اس نے جس نکتہ نظر سے دیکھا ہے وہ بھی بہت مختلف ہے، لیکن ترکی کو سمجھنے کے لئے ان اصحاب کو یہ سفرنامہ ضرور پڑھنا چاہئے جو طیب اردگان کو عالمِ اسلام کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اس سفرنامے کا سب سے اہم حصہ بلغاریہ کا ہے جو میرے لئے بھی ایک نئی دُنیا اور عجیب عالم حیرت تھا۔ سفرنامہ اس نے اپنے ہی پبلشنگ ہائوس، ’’جمہوری پبلیکیشنز‘‘۔ 2ایوانِ تجارت روڈ لاہور سے چھاپا ہے۔ وہ ایک کاروباری شخص نہیں ہے اس لئے اس نے اس کتاب کی قیمت میں منافع بالکل شامل نہیں کیا۔ ایسی خوبصورت طباعت اور تصاویر کا ہجوم شاید ہی کسی سفرنامے میں پڑھنے والے کو میسر آئے۔