امن کے شہر مکہ مکرمہ میں مسجدالحرام سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پہ رِ اَلزاخر کے علاقے میں رائل فیملی کی جگہ پر جدید ترین انداز کی تین متوازی عمارات میں تعمیر ہونے والے سبز روشنیوں سے مزین، ستائیس منزلہ نوووٹل ٹھاکر ہوٹل کا RT (ریسٹورنٹ) فلور کہ جس کا کشادہ اور رنگا رنگ ڈشوں سے مزین بُوفے کسی سخی کے لنگرخانے کی طرح ناشتے (6.30-10.30) ظہرانے (12.30-4.00) عشائیے (6.30-11.00) کے لیے چوبیس میں سے تیرہ گھنٹے تک کھلا رہتا ہے اور جہاں چائے، کافی، تازہ پھلوں اور رنگا رنگ جوسز کے ساتھ ساتھ پاکستانی، انڈین، بنگالی، برمی، انڈونیشین، ملائی، سری لنکن،یورپی، امریکی، افریقی، عربی مسلمانوں کے لیے اپنی اپنی پسند کی بہت سی ڈشیں ایک جگہ دستیاب ہوتی ہیں۔ ایک روز مَیں دوپہر کا کھانا لینے سے قبل پلیٹ میں خربوزہ، سلاد، ہری مرچ جیسے وغیرہ وغیرہ والے لوازمات جمع کرنے کے لیے پائن ایپل والی ڈش کے پاس کھڑا تھا کہ انتہائی سادہ سفید کُرتے پاجامے میں ملبوس مجھ سے آگے کھڑے ایک ادھیڑ عمر، کلین شیوڈ، چشمہ بردار، نفیس سے شخص نے میرے عزائم بھانپ کر خفیف سی چِمٹی کی مدد سے پائن ایپل کے دو ٹکڑے میری پلیٹ میں رکھ دیے۔ مَیں مزید کسی بات پہ غور کیے بغیر روایتی سا شکریہ ادا کر کے ایک میزپہ آن بیٹھا تو وہ صاحب بھی مجھ سے اجازت طلب کر کے چار کرسیوں والی اس میز پر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ شکل سے وہ انڈین، ملائی، انڈونیزین، بنگالی کچھ بھی ہو سکتے تھے۔ بیٹھنے کے بعد انھوں نے نفیس سی اُردو میں پہلا سوال پوچھا: پاکستانی؟ مَیں نے ہاں میں سر ہلایا تو شہر کی بابت دریافت کیا۔ لاہور کا سن کے ان کی دلچسپی بڑھی۔ جب مَیں نے پیشے، مشغلے یا مصروفیت والے سوال کے جواب میں ’تدریس‘ کہا تو نہال سے ہو گئے۔ ازاں بعد ان کے تعارف پر کھلا کہ موصوف کا تعلق مشرقی پاکستان، جسے حالات اور حضرات کی ستم ظریفی نے بنگلہ دیش بنا دیا ، سے ہے۔ نام ڈاکٹر محمد نصیر الدین ہے۔ مزید کھنگالنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہیں، اورینٹل کالج، شعبۂ عربی میں ہمارے استاد نما دوست جناب ڈاکٹر مظہر معین سے اب تک رابطے میں ہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر جو گزشتہ ایک آدھ سال میں تبدیلیِ فون کی نذر ہو چکا تھا، وہ بھی انھی سے حاصل کیا۔ یہی مشترکہ دلچسپی کے موضوعات تھے جو بقیہ دنوں کے قیام میں ہمارے درمیان اخلاص اور دوستی کا باعث بنے رہے۔ اسی نشست کے دوران نرم گفتاری و گرم جوشی کا ماحول دیکھ کر ان کے ایک باریش کولیگ ڈاکٹر عبدالقادر بھی تشریف لے آئے، جنھوں نے تعارف مکمل ہوتے ہی اپنے فون سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُردو کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد بھوئیاں سے ہمارا اچھا خاصا پُر تعریف تعارف کرا کے بات بھی کرا دی۔ بھوئیاں بھائی نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ سالوں میں لاہور کی کسی کانفرنس میں شرکت کا ذکر بھی کیا۔ بھائی چارے کے اسی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چاٹگام سے تعلق رکھنے والے ان کے دو فارغ التحصیل شاگرد اشرف الرحیم اور فاروقِ اعظم، جو کسی ادارے میں تازہ تازہ تدریس سے وابستہ ہوئے تھے، بھی آن براجمان ہوئے۔ خاصے بامطالعہ اور پاکستان سے شدید محبت کرنے والے نوجوان تھے۔ سب سے زیادہ صاف اُردو انھی کی گفتگو سے مترشح تھی۔ دونوں برادر ملکوں کی علاحدگی کی بات چلی تو باتوں باتوں میں فاروقِ اعظم نے کہہ دیا کہ وِرک صاحب! ذرا غور کیجیے کہ ہمارے دونوں ملکوں کے علیحدہ ہونے پر ہمارا بھی نقصان ہوا اور آپ کا بھی نقصان ہوا۔ ہم نے ضرورتِ شعری کی غرض سے عرض کیا کہ اس تقسیم کا فائدہ صرف انڈیا کو ہوا۔ ڈاکٹر نصیر الدین جو ہماری گفتگو کے دوران نسبتاً خاموش تھے ایک دم بول اٹھے: فائدہ نہ کہو میرے بھائی! وہ مزے لُوٹ رہا ہے… تجارت کے مزے… بین الاقوامی تعلقات کے مزے… ثقافت کے مزے… دو مسلمان ملکوں کی دشمنی کے مزے… اور سب سے بڑھ کے ہماریِ آپ کی بے بسی کے مزے… اب کچھ عرصے سے وہ اکھنڈ بھارت کا پاکھنڈ کھڑا کر کے اس کے مزے لے رہا ہے۔ ڈاکٹر نصیر کی گفتگو میں ایک بامطالعہ استاد ، دردِ دل رکھنے والے لبرل مسلمان اور تاریخ کا گہرااِدراک رکھنے والے دانش مند کی جھلک دکھائی دے رہی تھی… کہنے لگے: ہمارے درمیاں زبانوں کے اختلاف کو بہت ہوا دی گئی، ایک سے زیادہ زبانیں تو کسی بھی خِطے کا حسن ہوتی ہیں۔ اب بھلا اُردو کی اہمیت سے کس کو انکار تھا، پھر اپنے فون پہ انگریزی اور بنگلہ کے ساتھ ساتھ اُردو کا کی بورڈ (keyboard) نکال کے دکھایا بلکہ ویٹر سے ایک کاغذ منگا کے باقاعدہ اُردو لکھ کر دکھائی۔ میرا نام اپنے فون میں اُردو میں شامل کیا۔ مزید بولے: ’ہم نے تو صرف اپنی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی درخواست کی تھی۔ دنیا میں کتنے ممالک ہیں جن کی کئی کئی زبانیں قومی درجے پر فائز ہوتی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اُردو سے محبت رکھنے والوں کی جانب سے ہماری اس خواہش کا کورا جواب بھی انگریزی میں ملا… آپ عمر میں چھوٹے لگتے ہیں لیکن آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہمارا دوسرا قصور یہ گردانا گیا کہ ہم نے 1965ء کے الیکشن میں ایک ڈکٹیٹر کی بجائے جمہوریت اور عظیم خاتون محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ‘ بیچ میں ایک صاحب بولے: مولانا مودودی کا وہ جملہ ہماری طرح شاید آپ لوگوں کو بھی یاد ہو، جنھوں نے کہا تھا کہ ’ایوب خاں میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں اور فاطمہ جناح میں عورت ہونے کے علاوہ کوئی خامی نہیں۔‘ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ یہ ہٹ دھرمی اس کے بعد بھی جاری رہی اور 1970ء کے الیکشن میں ایک مقبول ترین اور بھاری عوامی اکثریت حاصل کرنے والے،محترمہ فاطمہ جناح کے اُسی حامی لیڈر کو نکرے لگانے اور دھونس دھاندلی کے ساتھ ایک چاتر اور شاطر لیڈر کا راستہ ہموار کرنے کے لیے شعبدہ بازی کی گئی۔ ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ اور ٹانگیں توڑنے کی تلخ باتیں تو تاریخ کے ابواب پر آتشیں الفاظ میں لکھی ہیں جس کی سزا ہم دونوں بھگت رہے ہیں بلکہ ہم سے زیادہ آپ! کہ آپ لوگوں کو تو شاید اب تک ہوش نہیں آئی اور چکی کے انھی دو غاصب پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ اپنے لوگوں کو بتائیں کہ ہم تو چوٹ کھا کے سنبھل گئے، کچھ وسائل نہ ہونے کے باوجود ہم نے سمال انڈسٹری پہ توجہ کی اور اس وقت دنیا میں گارمنٹس کے بہترین ایکسپورٹرز ہیں۔ آپ کے پاس تو زراعت تھی، ٹورزم تھا، صحرا تھا، سمندر تھا، معدنیات تھیں، ایٹم تھا، ذرا موازنہ تو کریں کہ ہم اپنے کسی نہ کام کے 28 ٹکے میں ایک ریال اور 106میں امریکی ڈالر خرید رہے ہیں اور آپ کو اس کے لیے 82 اور غالباً 300 روپے خرچ کرنا پڑ رہے ہیں…اگرچہ ہمارے حکمران بھی کچھ ایسے اطمینان بخش نہیں ہیں، ایک تسلی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ نہ سہی ملک کے ساتھ تو مخلص ہیں۔ ہمارے معاوضے کم ہیں لیکن اس بات سے ڈھارس بندھتی ہے کہ قومی خزانے میں اکتالیس ارب ڈالر پڑے ہیں۔ یہ ساری باتیں اگرچہ بہت تلخ تھیں لیکن ان کا لہجہ شیریں اور ہمدردانہ تھا، جیسے کوئی ہم راز طویل مدت کے دل کے پھپھولے پھوڑ رہا ہو۔ (جاری ہے)