پاکستان نے عالمی بنک کی جانب سے کاسا 1000منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ جمہوریہ قرغز‘ تاجکستان ‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان توانائی کے اس منصوبے کا افتتاح 2017ء میں ہوا تھا جس کو 2021ء میں مکمل ہونا تھا مگر افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے اول تو اس منصوبے پر کام ہی شروع نہ ہو سکا دوسرے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تین بڑی کمپنیاں اس منصوبے کو تخیلاتی اور ناقابل عمل قرار دے چکی ہیں جس کے بعد اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی 9.48سنٹ فی کلو واٹ ملنا ہے جبکہ اس سے کہیں سستی بجلی ایران سے مل سکتی ہے۔ دوسرے افغانستان یا کسی اور جگہ ٹرانسمشن لائن میں تعطل آتا ہے تب بھی حکومت پاکستان کو قسط ادا کرنا پڑے گی۔ مزید یہ کہ پاکستان منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹوں کی وجہ سے تاخیر کے باعث مہمند ڈیم اور داسو ڈیم سمیت متعدد منصوبوں پر کام بھی کر رہا اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان منصوبوں کے بعد پاکستان کی ضرورت کے مطابق مقامی بجلی دستیاب ہو سکتی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت کاسا 1000منصوبے کو اگر مکمل کرنا بھی چاہتی ہے تب بھی ٹیرف اورقسط کی ادائیگی کو بجلی کی فراہمی سے مشروط کرے تاکہ ملکی معیشت کو غیر ضروری بوجھ سے محفوظ رکھا جا سکے۔