آصف زرداری آج کل بلند ہوائوں میں اُڑ رہے ہیں۔ پاکستان آرمی کے ایک سینئر کمانڈر کے بارے میں بولا گیا جملہ اسی تکبر اورخود اعتمادی کا اظہار ہے جوایک اندازے کے مطابق سال 2020 ء کے بعد شروع ہونے والی پسپائی کا نتیجہ ہے۔فوج کی طرف سے آنے والا رد عمل مگر مجموعی طور پر صائب، متوازن اور عمومی طور پر مبنی بر حقیقت ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آرکا کہنا ہے کہ ادارہ مسلسل سیاستدانوں سے درخواست کر رہا ہے کہ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ وطنِ عزیز وجود میں آیا تو مغرب میں افغانستان نوزائیدہ مملکت کو تسلیم کرنے سے انکاری اور پاک افغان سرحد کو مٹا دینے کے در پے تھا۔ مشرق میں مائونٹ بیٹن اور کانگرسی رہنمائوں کے مہینوں پر محیط گٹھ جوڑ کے ہاتھوں کشمیرپر قبضے کی مکارانہ چالوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ راجہ کی فوج کے مظالم روکنے کے لئے اٹھنے والے کشمیریوں اور ان کی مدد کے لئے آنے والے قبائلی لشکر کی مزاحمت کو جواز بنا کرکشمیر میں بھارتی فوج اتار دی گئی۔ جواب میں پاک فوج کو کارروائی کا حکم دیا گیا تو انگریز کمانڈر ان چیف نے گورنر جنرل کے حکم پر بوجہ عمل درآمد سے گریز کیا۔چنانچہ وزیرِ اعظم کی ایماء پر جی ایچ کیو میں ایک خفیہ سیل قائم کیا گیا کہ جو کشمیر میں لڑنے والے رضا کاروں کی کاروائیوں کے انتظام و انصرام کو دیکھتا۔ ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس کے علاوہ جی ایچ کیو میں تعینات کرنل اکبر، جنرل طارق کے نام سے ان کارروائیوں کی نگرانی کرتے اور کشمیر سے متعلق نا صرف عسکری بلکہ کسی حد تک سیاسی امور پر بھی وزیرِ اعظم آفس کو براہِ راست رپورٹ کرتے۔ انگریز کمانڈر انچیف اپنے افسروں کی سرگرمیوں سے بے خبر نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے گورنر جنرل سے اپنے ان ماتحتوں کی سیاسی شخصیات سے روابط کی باقاعدہ شکایت کی۔گورنر جنرل اور وزیرِ اعظم کے تعلقات کار میں کسی قدر کچھائو پیدا ہوچکا تھا۔چنانچہ گورنر جنرل جب کوئٹہ میں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں زیرِ تربیت افسروں سے خطاب کے لئے پہنچے تومسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے فوجی افسروں کو ان کے حلف کی یاد دہانی کرواتے ہوئے انہیں سیاسی معاملات سیاسی قیادت پر چھوڑ کر پیشہ ورانہ امور پر توجہ مرکوز رکھنے کی نصیحت کی گئی۔یہ وہی خطاب ہے کہ جس کا حوالہ ہمارے ہاں اکثر دیا جاتا ہے، مگر درست پسِ منظر بتانے سے گریز بر تا جاتا ہے۔ فوج کو سویلین امور میں ایک بار پھر دخل اندازی کا موقع اس وقت ملا جب سال 1953 ء میں مذہبی فسادات کے بعد لاہور میں مارشل لا ء نافذکیا گیا۔امن و امان کی بحالی کے بعد شہر کی صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش کا کام بھی فوج کو سونپا گیا۔ڈان اخبار نے ایک ستائشی اداریئے میں لکھا۔’جنرل اعظم اور ان کے جوانوں کے احسانات کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی‘۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں پٹ سن کی مغربی بنگال کو سمگلنگ روکنے کا فریضہ بھی سول اداروں سے لے کر فوج کو تفویض کر دیا گیا۔فوج نے اپنا کام دیانتداری سے انجام دیا تو چند ہی دنوں میں مشرقی پاکستان کے قصبوں ، بازاروں میں ’پنجابی فوج ‘کے خلاف جلوس نکلنا شروع ہو گئے۔اس سب کے برعکس ، سرحد کے اُس پار پاک فوج سے کئی گنا بڑی اور طاقتوربھارتی فوج کو اس کے دائرہ کا ر تک محدود رکھا گیا۔ ہندوستان میں اناج کی قلت پیدا ہوئی تو وزیرِ اعظم نہرو پر دبائو بڑھا کہ گندم کی تقسیم کا نظام فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے صاف انکار کرتے ہوئے محکمہ خوراک کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور فوج کو عسکری معاملات تک محدود رکھے جانے کا حکم دیا۔سرحد کے دو اطراف انہی متضاد رویوں کا نتیجہ تھا کہ پردھان منتری نہرو نے برسوں حکومت کی اورایک دن ہمیں بتایا کہ وہ اس تیزی سے اپنے پاجامے تبدیل نہیں کرتے جس تیزی سے پاکستان میں وزرائے اعظم بدلتے ہیں۔نہرو کے پاجامے بدلے جانے کی سی تیزی کے ساتھ پاکستانی وزرائے اعظم کی تبدیلی کا سلسلہ اُسی وقت موقوف ہوا جب فوج نے صدر ایوب کی سربراہی میں براہِ راست اقتدار سنبھال لیا۔ تاہم سال 1969ء میں جب ملک دوراہے پر کھڑا تھا تو پہلی بار ثابت ہوا کہ تمام تر پیشہ ورانہ مہارت اور رعب دبدبے کے باوجودجہاندیدہ اور شاطر سیاستدانوں سے نمٹنابچوں کا کھیل نہیں، جیسا کہ ہم میںسے اکثر سمجھتے ہیں ۔آج سے پچاس سال پہلے بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ عسکری امور میں اعلیٰ شہرت کے حامل جنرل یحییٰ کو استعمال کرنے کے بعد بھٹو صاحب نے حکومت سنبھالتے ہی آصف زرداری کے الفاظ میں ’کھڈے لائن‘ لگا دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے پورے خلوص سے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا۔ دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں ’بروکر‘ کا کردار ادا کرنے کی بھی کسی حد تک کوشش کرتے رہے۔ لیکن اقلیتی جماعت کے لیڈر کے’گیم پلان ‘ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ اگر جنرل یحییٰ اس وقت عوام کی پکار پر کان دھرتے اوراکثریتی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کو اس کے جمہوری حق سے محروم رکھے جانے کی کوششوں کا حصہ بننے سے انکار کردیتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو کچھ ہی مہینوں بعد فوج کے سپہ سالار کو اغواء کر کے ان سے جبراََ استعفٰی لے لیا گیا کہ پیشہ ور سپاہی نے سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھتے ہوئے فوجی یونٹس کو حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے انکار کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کا ایسا دور شروع ہوا کہ جس کے نتائج ہم آج تک مختلف شکلوں میں بھگت رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی وفات کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک صدر، وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کو اقتدار کی تکون (Troika)کہا جاتا رہا۔ گزشتہ تین عشروں میںہم کہاں سے چل کر کہاں پہنچ گئے ، گزرے واقعات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایک خیال ہے کہ وطنِ عزیزایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہے۔ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت اور عوام میں غیر معمولی مقبولیت کی حامل جماعت اقتدار سے باہرکی جا چکی ہے۔پاکستانی مڈل کلاس اور سمندر پار پاکستانیوں کی غیر معمولی تعدادپرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی پرسخت نالاں ہے۔حالتِ اضطراب میں ہیں اورچاہتے ہیں کہ ادارہ عام انتخابات کے اعلان کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے ۔دوسری طرف زرداری صاحب کے بعداب تو ن لیگ کی قیادت بھی کئی عوامل کی بناء پر انتخابات کے معاملے پر ابہام برقرار رکھنا چاہتی ہے۔گمان یہی ہے کہ حکمران خاندانوں کے کلیدی افراد کو دی گئی سزائوں اور ان کے خلاف مقدمات کے خاتمے کو جلد انتخابات سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کئے جانے کے قرائن نظر آرہے ہیں ۔اس دوران جبکہ معاشرہ شدید ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے ،معاشی صورتِ حال ناقابلِ بیان حد تک خوفناک ہو چکی ہے۔ اگربے یقینی کی اس اعصاب شکن قومی کیفیت کی بجائے’ درسی نصاب‘ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ادارے کی ’نیوٹریلیٹی‘پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔