میری ماں اپنے بچپن کے واقعات سنایا کرتی تھی تو وہ کہتی تھی کہ ہم بچپن میں مٹی کے ساتھ کھیلتے تھے۔ سارا دن مٹی کے گھروندے بناتے تھے اور جب اس کھیل سے دل بھر جاتا تھا تو ان گھروندوں کو خود ہی ختم کر دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ گاتے تھے ہتھاں نال بنایا سی پیراں نال ڈھایا ہ اے دوسرے دن پھر وہی سلسلہ ہوتا تھا کہ نئے گھروندے بنتے تھے اور پچھلے دن کی طرح یہ گھروندے بھی جو ہاتھوں سے بنائے ہوتے تھے پیروں سے ڈھا دیے جاتے تھے اور وہی گیت گایا جاتا تھا ہتھاں نال بنایا سی پیراں نال ڈھایا اے اور یہ سلسلہ سارے بچپن میں چلتا رہتا تھا۔ مجھے یہ بات ملکی سیاست کے حوالے سے بہت مناسب لگی ہے جس طرح سے میاں محمد نواز شریف کو اب العزیزیہ سٹیل مل کے ریفرنس سے بری کر دیا گیا ہے یہ بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح 2017صبح کا وقت تھا جب کچھ بچوں نے کچھ نئے گھروندے بنائے تھے اور آج 2023ہے اور یہ شام کا وقت ہے اور اب وہی گھروندے مسمار ہو رہے ہیں۔دنیا کہاں سے کہاں تک جا پہنچی ہے اور ہم وہی پرانے کھیل، کھیل رہے ہیں۔ 2017میں نواز شریف اور اس کا خاندان ایک کرپٹ خاندان تھا۔ ہماری عدالتیں اس کو سزا سنا رہی تھی اور اب یہی نواز شریف ہے اور اب وہ ہر روز کسی نہ کسی کیس میں بری کر ہو رہے ہیں ا۔یہی ہمارا وہ میڈیا ہے جو اب نواز شریف کی شکل میں قوم کو ایک مسیحا کا تاثر دے رہا ہے اور ہمیں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اگلی حکومت جب نواز شریف کی آئے گی تو پاکستان کے سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ سن 18میں لوگ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے اور اور میڈیا کے ذریعے ایک فضا بنائی جا رہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی سونامی کے آگے کوئی سیاسی جماعت ٹھہر نہیں سکے گی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کا سونامی اس زور سے آیا کہ جس میں مخالف سیاسی جماعتیں بھی بہہ گئی اور خود پاکستان تحریک انصاف بھی اس سونامی میں بہہ گئی اور اب اس کے اجزائکچھ اس طرح سے بکھرے ہیں کہ کچھ پاکستان مسلم لیگ نواز میں چلے گئے ہیں کچھ پیپلز پارٹی میں چلے گئے ہیں اور کچھ کے لیے نئی جماعتیں بنانا پڑی ہیں۔ اب سن 2023ہے اب عمران خان جیل میں ہے اور نواز شریف جیل سے باہر ہے۔سن 2018میں نواز شریف جیل کے اندر تھا اور عمران خان باہر تھا لیکن دونوں بار ایک قدر مشترک ہے کہ جناب آصف علی زرداری سن 2018میں بھی جیل سے باہر تھے اور اب سن 2023میں بھی وہ جیل سے باہر ہیں اور سن 2024کا الیکشن بھی آزادی کے ساتھ لڑیں گے۔ ہمارا پڑوسی ملک آزادی کے بعد کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا اور ہم سن 1951سے اب تک ایک ہی گیت الاپ رہے ہیں جس میں کسی نہ کسی طریقے سے عوام کی پسندیدہ قیادت کو اقتدار سے دور رکھا جاتا ہے اور منظور نظر قیادت کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب تک چلتا رہے گا ۔ہماری مثال اس مسافر کی ہے جو ملتان سے لاہور کی بس میں بیٹھتا ہے اور وہ ٹھوکر کے بس سٹینڈ پہ اتر جاتا ہے اور اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بس وہ نہیں ہے جو اس کو لاہور لے کے جائے گی اور وہ سڑک کراس کر کے ملتان جانے والی بس میں بیٹھ جاتا ہے اور اٹھ دس گھنٹے کے بعد دوبارہ ملتان پہنچ جاتا ہے اور پھر اس کو احساس ہوتا ہے کہ ابھی تو اس کا لاہور کا سفر شروع نہیں ہوا۔ ہماری سیاسی تاریخ بالکل ایسی ہی ہے ہم پانچ دس سال کے بعد کوئی سفر شروع کرتے ہیں اور پانچ دس سال کے بعد پھر وہیں پہ ہوتے ہیں جہاں سے ہم یہ سفر شروع کرتے ہیں کبھی ہم سن 58سے ایک نیا سفر شروع کرتے ہیں اور پھر 11سال کے بعد پھر وہیں پہ ہوتے ہیں اور کبھی ہم 77سے لے کر 88تک اسی بھنور میں پھنسے رہتے ہیں اور تیسری بار 1999سے لے کے 2008تک ہم اسی لا حاصل کاوش میں مصروف رہتے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ اب ہمارے پاؤں شل ہو چکے ہیں۔ قوم میں مزید سفر کرنے کی ہمت نہیں ہے اور سفر بھی ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔یہ تو بالکل اس ورزش والی مشین پہ دوڑنے کا عمل ہے جس میں آدمی ایک گھنٹے میں پاؤں چلا چلا کے پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے مگر رہتا اسی مشین پر ہے اور شاید ہم سفر کے کے بجائے ورزش کر رہے ہیں یا کوئی مشق ہے جو ہم مسلسل کیے جا رہے ہیں کیونکہ سفر کا کوئی اختتام ہوتا ہے کوئی منزل ہوتی ہے لیکن جو ورزش ہوتی ہے وہ تو وقت گزاری کے لیے کی جاتی ہے اور جسمانی فٹنس اور طاقت کا حصول اس کا مقصد ہوتا ہے۔ اب 2024کی الیکشن میں 60دن سے بھی کم رہ گئے ہیں مگر الیکشن کی گہما گہمی اس وقت تک شروع نہیں ہو سکی ابھی الیکشن کا شیڈول نہیں آیا ۔ کسی کو اس بات کا احساس نہیں کہ پاکستان اس وقت بہت ہی نازک صورتحال میں ہے افغانستان کے ساتھ تعلقات ہمارے کافی حد تک کشیدہ ہو چکے ہیں افغان مہاجرین کا مسئلہ اس وقت بڑا سنگین مسئلہ ہے جس پر ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے دورے میں بھی بات چیت ہو امریکہ اس خطے سے چلا تو گیا ہے لیکن اس کے مفادات ابھی اس خطے میں ہیں اور آنے والے بہت کافی دنوں میں یہاں پہ جو کچھ بھی ڈویلپمنٹ ہوگی کسی نا کسی طریقے سے امریکہ کا حصہ ضرور ہوگا۔