کہنے لگے:ہماری وزیرِ اعظم میں کئی خامیاں سہی لیکن وہ مقبول ترین لیڈر کی بیٹی ہونے کے باوجود گھر میں سولر انرجی والا پنکھا چلاتی ہے۔ پروٹوکول اور اقربا پروری کا بوجھ ہم پہ نہیں لادتی، میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے…اسی حج کو دیکھ لیجیے کہ ہمارے پچاس لوگ جن کا تعلق تعلیم سے ہے، سب رائل گیسٹ ہیں، ہمارا سفر، زیارتیں، قربانی تک محمد بن سلمان کے ذمے ہے اور آپ بھاری رقوم خرچ کر کے حج پہ آئے ہیں ۔ آپ کے ہاں سنا ہے اس طرح کی سہولیات اب تک صرف طاقت ور لوگوں کے بھانجوں ، بھتیجوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ پھر کہنے لگے، انڈیا ہمارے ہر کام میں دخیل ہے ، آپ ہماری طرف سے مکمل بے نیاز ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود ہمارا دل آج بھی پاکستانی لوگوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ انڈیا پاکستان کا کرکٹ میچ ہو تو ہم پاکستان کی جیت پر بھنگڑے ڈالتے ہیں، بابر اعظم کے چھکے ہمارے دل سے ہو کر گزرتے ہیں۔ شعیب اختر کی سپیڈ اور وسیم اکرم کی سوئنگ ہمارے حوصلے بڑھاتی ہے۔ آپ نے ایٹمی دھماکے کیے تو ہمارا سیروں خون بڑھا۔ آج بھی ہمارے بہت سے اداروں میں اُردو پڑھائی جا رہی ہے، تقریباً ہر بنگالی اُردو سمجھتا ہے، ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتا ہے، شاید ہی کوئی پڑھا لکھا بنگالی ایسا ہو جسے اقبال کے دس بیس اشعار یاد نہ ہوں۔ بعض نے اپنی اپنی پسند کے کچھ اشعار بھی سنائے بلکہ فاروق اعظم نے تو بنگلہ دیش میں جا بجا پنجے گاڑتی ہندی ثقافت کے مقابلے میں پاکستان سے ڈھاکہ میں اقبال کلچرل سوسائٹی قائم کرنے کا فوری مطالبہ بھی کیا۔ پھر کہیں سے سوال برآمد ہوا کہ آپ کے ہاں سنا ہے تعلیم میں انگریزی اور گفتگو میں ہندی کے بہت چرچے ہیں، آگے سنا ہے چینی بھی سکھانے جا رہے ہیں، کیا کہیں بنگالی کی رمق بھی موجود ہے؟ اس وقت ہمارے ذہن میں صرف گلی محلوں میںترقی کرتا بنگال کا جادو اور قریہ قریہ براجمان بنگالی بابے آئے لیکن ایک کامل مسلم ملک میں بیٹھ کے ان ’کمالات‘ کا حوالہ دینا زیادہ سُود مند دکھائی نہ دیا۔ کسی زمانے میں ٹیگور کی ’’گیتا انجلی‘‘ کا اُردو ترجمہ پڑھا تھا لیکن کوشش کے باوجود اس کا کوئی مصرع ہاتھ نہ آیا۔لے دے کے کسی فلمی گیت کا ٹکڑا ’آمی تما کہ بھالو بھاشی‘‘ ذہن میں آیا جسے ہم نے کسی اور مناسب موقع کے لیے سنبھال لیا۔ ایک صاحب بولے:انتہا پسند ہندو جب اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتا ہے تو ہم بھی آپ کے ایٹم کی طرف دیکھتے ہیں لیکن آپ کے مخدوش و مشکوک سیاسی، سماجی،معاشی حالات کی بنا پر ذہن میں یہ خدشات بھی منڈلانے لگتے ہیں کہ جب ہم بوقتِ ضرورت آپ کے ایٹم کی طرف دیکھ رہے ہوں تو آپ جانے کس کی جانب دیکھنے لگیں۔بھائی ایک لاکھ فوج تو کسی ملکی کی ٹوٹل فوج ہوتی ہے اور آپ نے؟ اس کے بعد اس کی خموشی بولتی رہی…ان ساری باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا لیکن جواب آں غزل کے طور پر کہیں ذہن کے دریچوں سے بمشکل کھینچ کر لائے شیرِ بنگال کی عظمت کو سراہا،کچھ خواجہ ناظم الدین اور سہرودی کی قصیدگی کی۔تھوڑی بہت ایم ایم عالم کو سلامی پیش کی۔سراج الدولہ اور میر جعفر والے قصے کو ہم جان بوجھ کر گول کر گئے۔ جب ہمیں بوسیدہ تاریخ اور مشکوک سیاست کے پتے بھی زیادہ کارگر ہوتے دکھائی نہ دیے تو پھر ہم نے تُرپ کے پتوں یعنی ادب و فن کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے کچھ شاعروں ادیبوں کے حوالے سے ان کی ڈھارس بندھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ کہیں مختار مسعود کے ’لمحے‘ کی بات چلائی… کہیں انتظار حسین کے ’بستی‘، الطاف فاطمہ کے ’چلتا مسافر‘، صدیق سالک کی ’ ہمہ یاراں دوزخ‘ سے بات کو سنبھالا، کہیں طارق محمود کے ’اللہ میگھ دے‘ کو ڈھال بنایا، سلمیٰ اعوان کے ’تنہا‘ کا حوالہ دیا۔ اداکار رحمان، شبنم گھوش، نذرالاسلام، بُندو خاں اور رُونا لیلیٰ کو بیچ میں ڈالا۔ پرائمری میں پڑھے نواب سلیم اللہ، تیتو میر شہید اور پانچویں جماعت کے سالانہ امتحان کے لیے جلال الدین سلہٹی کے سلہٹ پہنچنے کے حوالے سے رٹا ہوا سوال فر فر سنا دیا کہ کس طرح ان کے ماموں کبیر الدین نے انھیں مُٹھی بھر مٹی دی کہ جاؤ بیٹا دنیا کی سیاحت کرو اور جس زمین کی مٹی اس جیسی ہو وہاں یہ مٹی ڈال دینا،وغیرہ وغیرہ۔انور مسعود کے اس طرح کے طنزیہ احساسِ زیاں سے متعارف کرایا: ملک آدھا گیا ہاتھ سے تو چپ سی لگی ہے اِک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے سولہ دسمبر کے سانحے کے حوالے سے اپنا یہ شعر بھی ان کے گوش گزار کیا: سانحہ جب بھی ستاتا ہے اکہتر والا جاگ اٹھتا ہے وہی درد بہتر والا سب سے بڑھ کے ناصر کاظمی کام آیا،جس نے اس علیحدگی پر نہایت دکھ اور کرب کے ساتھ اضطراب آمیز سوال اٹھائے تھے کہ جن کا جواب دینے کی کسی نے آج تک کوشش ہی نہیں کی: وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے؟ وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے؟ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟ فیض کی اس نظم کو تو وہ باقاعدہ سلامی دینے پر تیار ہوگئے، جو فیض احمد فیض نے ۱۹۷۴ء میں ڈھاکہ سے واپسی پر خونِ دل سے تحریر کی تھی: ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے تھیں بہت بے مہر صبحیں، مہرباں راتوں کے بعد آکری بات یہ کہ اس وقت پورے سعودیہ پہ بنگالیوں کا قبضہ ہے، جی ہاں! کاروباری قبضہ، جو انھوں نے اپنی جانفشانی، اعتماد اور اخلاص کے زور پر کیا ہے۔ نہ صرف قبضہ ہے بلکہ عرب لوگوں کو ان کی صلاحیتوں اور وفا داریوں کا یقین بھی ہے۔ مدینہ میں ہمارے ہوٹل کے کمرے کی صفائی، ستھرائی، سپلائی چٹاگانگ کے مہدی حسن کے ذمے تھی۔ وہ اچھی اُردو جانتا تھا، اُس سے گلوکاری کا تو نہیں پوچھا لیکن وہ گفتگو، اخلاق اور ذمہ داری کے حوالے سے بہت سُریلا تھا۔ ہم جیسے ہی مقدس زیارات، روضۃ الجنہ یا نمازوں سے واپس آتے، وہ دروازے پر منتظر ملتا۔ پلک جھپکتے میں مشینی صفائی والے دوسرے بنگالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتا۔ بستر کی چادریں بدلنے کے ساتھ چائے، کافی، ٹشوز، تولیے، صابن، بسکٹ، پانی کی بوتلوں والی خالی جگہوں کو محض باتوں یا اخلاقیات سے نہیں متبادل اشیا سے پُر کرتا۔ بریگیڈیئر صدیق سالک کہ جنھوں نے ایک زمانے میں ہمیں ڈھاکہ ڈوبنے کی سناؤنی دی تھی، آج زندہ ہوتے تو انھیں بتاتے کہ ان باون سالوں میں جہاں آج ہم خود سیلاب اور کچھ غلط لوگوں کے عذاب میں غوطے کھا رہے ہیں،وہاں ہم نے ماضی کے اُس ڈوبتے یا ڈبوئے ہوئے ڈھاکہ کو عزمِ مصمم، محنت، کوشش، لگن، ایمان داری، تعلیمی، معاشی ترجیح اور حب الوطنی کے پروں کے ساتھ ترقی کی فضاؤں میں اپنی آنکھوں سے تیرتے دیکھا ہے۔