واللہ نہیں جانتا کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار کے بیچوں بیچ ا للہ رب العالمین کے گھر میں جمع ہونے والوں پر آتش وآھن کی بارش کرنے والے کہاں سے آئے۔ 62معصوم نمازیوں کی زندگی کا چراغ گل کرنے پران کا دل وماغ کیونکر آمادہ ہوا۔البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کی اس حرکت نے بائیس کروڑ پاکستانیوں کے چہرے پر کالک مل دی ہے۔ ندامت اور شرمندگی نے ہمارے سر جھکا دیئے ہیں کیونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔دنیا ہماری بے بسی اور نالائقی کا تمسخر اڑاتی ہے۔ دشمن تماشا دیکھتا اور جلتی پر تیل ڈالتاہے۔ دہائیوں قبل کسی دانشور نے کہا تھا کہ ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ انتہاپسندی کی آگ ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ گزشتہ چند برسوں میں وزیراعظم عمران خان سے لے کر ریاست کے ہر ادارے نے انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے قابل قدر کوششیں کیں لیکن سانحہ پشاور سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ انتہاپسند گروہوں کی بظاہر سرگرمیاں کم ہوئی ہیں لیکن زیر زمین وہ اسی شد ومد کے ساتھ سرگرم ہیں۔ غالباً ان کے سیاسی سرپرستوں نے مصلحت کے تحت خاموشی کی چادر اوڑھ لی لیکن ان کے چیلے مسلسل حرکت میں ہیں۔ آئی ایس آئی ایس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ جو افغانستان کے مختلف علاقوںمیںپائی جاتی ہے۔یاد رہے کہ آئی ایس آئی ایس ماضی میں بلوچستان میں ہزارہ قبائل پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے۔ آئی ایس آئی ایس پاکستان کے نام سے اپنا ایک الگ ونگ بھی قائم کیا ہوا ہے، جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیاں منظم کرتاہے اور ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتاہے۔پرے سال افغانستان کے اندر بھی کئی ایک مساجد میں انہوں نے بم دھماکے کیے تھے ۔ ان کا عمومی ہدف شیعہ مسلمان ہیں۔آئی ایس آئی ایس کو مسلمانوں کے اندمادر آف دی انتہاپسند تصور کیا جاتاہے۔ یہ شام اور عراق میں بھی اپنے ہی ہم مذہب مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ملوث ہیں۔ حربی حکمت کار برسو ں سے یہ باورکراتے رہے کہ افغانستان میں طالبان کا سنہری دور لوٹے گا تو پاکستان کے سرحدی علاقوں میںنیروامن کی بانسری بجائے گا۔طالبان تحت کابل پر کب کے براجماں ہوچکے ہیں ۔ امریکی اور ان کے اتحادی بھی رخصت ہوچکے ہیں لیکن افغانستان کی سرحد پر سے پاکستان پر ہونے والی فائرنگ کا سلسلہ تمام نہیں ہوا۔پاک افغان سرحد پر باڑ بھی لگادی ہے۔ اس کے باوجودفوجی جوانوں کی شہادت کی خبریں میڈیا کی زینیت بنتی ہیں اور بہت سی خبریں سیاسی ہنگاموں میں دب جاتی ہیں۔ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں پر کوئی خاص روک ٹوک نہیں بلکہ طالبان کے اندر موجود کئی ایک موثر شخصیات انہیں اپنا مہمان اور محسن تصور کرتی ہیں۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی یا پابندی کے خلاف ہیں۔ اگرچہ آئی ایس آئی ایس کے طالبان حکمران سخت مخالف ہیں لیکن ابھی تک وہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے سے انہیں روک نہیں پائے۔آئی ایس آئی ایس پاکستان کے اندر کئی ایک دہشت گردی کی کارروائیاں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے۔ دہشت گردی ایک ایسی وبا ہے،جس کا مقابلہ محض ریاستی ادارے نہیں کرسکتے ۔ بوتل سے نکلے اس جن کو قابو کرنے کے لیے عالم اسلام کو مشترکہ اور جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔سعودی عرب سمیت عرب ممالک نے گزشتہ چند برسوں میں انتہاپسندی کو خیر آباد کہہ کر اعتدال پسندی کی روش اختیار کیا۔عرب علما نے بھی خاص طور پر مسلمان معاشرے کے اندر میانہ روی اور برداشت کی کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے مثبت اثرات پاکستان اور افغانستان پر بھی مرتب ہوئے۔ مکہ ڈیکلریشن میں افغان اور پاکستانی علما نے مشترکہ طورپر دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کی اور نجی جہادی کارروائیوں کو مسترد کیا۔ قطر اس خطے میں مکالمے اور ثالثی کے مرکز کے طور پر ابھرااور مسلم دنیا کے لیے ایک مثبت مثال قائم کی۔ اسلامی تعاون کونسل (او آئی سی ) کا ایک غیر معمولی اجلاس بائیس مارچ کو اسلام آباد میں ہورہاہے۔ اور مسائل کے علاوہ مسلمان ممالک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔ واعظ ونصحیت کا وقت لد چکا ہے۔ مذمتی قراردادوں اور بیانات سے دہشت گرد گروہوں کا بال بھی بھیکا نہیں ہوتا۔او آئی سی اس مسئلہ پر دو پہلوؤں سے غور کرے۔ پہلے مرحلے میں نظریاتی اور فکری سطح پر ایسے عناصر کو الگ تھلگ کیا جائے۔نفرت پھیلانے اور تشدد بھڑکانے والا لڑیچر ضبط کیا جائے۔ان عناصر کی شہریوں تک رسائی روکنے کے لیے عوامی فورمزیا میڈیا انہیں استعمال نہ کرنے دیا جائے۔دہشت گردی کا ٹریک ریکاڈر رکھنے والے افراد کی پروفائلنگ کی جائے اور اس معلومات کو ایک دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کیا جائے تاکہ دہشت گرد گروہوں اور ان کے سرپرستوں کی نقل حمل کو ناممکن بنایاجاسکے۔دوسرا لیول خفیہ معلومات کے اشتراک اور مشترکہ کارروائیوں کا ہے۔ او آئی سی کا سیکرٹریٹ اس حوالے سے ماضی میںکافی متحرک رہاہے،اسے مزید وسائل اور ایسے مردان کار فراہم کیے جائیں جو دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا جذبہ اورمہارت رکھتے ہوں۔ دہشت گردوں کا بڑا نیٹ ورک مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ ایران، افغانستان اور پاکستان سے فکری غذا حاصل کرتاہے۔ مالی تعاون اور انسانی وسائل بھی ان ہی ممالک سے ان گروہوں کو دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر ان ممالک کے درمیان کوئی نظام کار ایسا طے پاسکے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کریں گے، تو چند سالوں میں انتہاپسندی پر قابو پایا جاسکتاہے۔ابھی تک ان ممالک کے درمیان کوئی ایسے میکانزم موجود نہیںجو انتہاپسندی اور دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے موجود ہو۔بلکہ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایران اور عرب ممالک کی باہمی چپقلش ایسے عناصر کو تحفظ دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت پیش نظر رہے کہ مسلم دنیا کو اس وقت خارج سے اتنا بڑا خطرہ درپیش نہیں جتنا داخل سے ہے۔مسلم دنیا جس کی آبادی کا ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے،ان عناصر کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے یا پھر مذہب بیزاروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ اسلام کا اعتدال پسندانہ چہرہ ان عناصر نے بری طرح مسخ کردیا ہے۔دنیا میں مسلمانوںکا تعارف خوان خرابے اور جنگ وجدل میں مشغول اقوام میں کیا جاتاہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سرکار اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر انتہاپسندی کے خلاف وسیع البنیاد اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اس اتفاق رائے میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک بالخصوص ایران، سعودی عرب اور وسطی ایشیا کے ممالک کو مشترکہ محاذ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مشترکہ طور پر انتہاپسند عناصر کو نظریاتی اور عملی سطح پر غیر فعال کیا جاسکے۔