نگران حکومت کو عوام پی ڈی ایم کی حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل سمجھتے ہیں، پیپلز پارٹی نگرانوں کے کارناموں سے خود کو بری الزمہ قرار دینے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد میں صرف پیپلز پارٹی بار بار نگران حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، بلاول کہتے رہے کہ الیکشن کمیشن، نگران حکومت کسی کو علم نہیں کہ انتخابات کب ہونگے لیکن ن لیگ کو اس کا علم ہے اور وہ تاریخوں کا اعلان کرتی ہے، خورشید شاہ نے کھل کر کہا کہ نگران حکومت ن لیگ کی حکومت ہے کہ اس میں ن لیگ کے خاص چار لوگ شامل ہیں، نواز شریف نے ان حالات کو بھانپتے ہوئے جبکہ وہ پاکستان واپسی کا اعلان کر چکے تھے، انھوں نے 18 ستمبر کو گفتگو کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کر دیں، جس کے بعد ن لیگ کو ایک مرتبہ پھر منہ کی کھانی پڑی ہے، نواز شریف خود کو چوتھی بار ملک کا وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم اتحاد میں ن لیگ کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے، نواز شریف کے 18 ستمبر کے بیان کے بعد پیپلز پارٹی اس تاک میں ہے کہ اس کا کوئی داؤ لگ جائے لیکن جس طرح شہباز شریف لندن سے پاکستان آنے کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ لندن چل دئیے اور ان کے پیچھے مریم نواز نے بھی لندن کیلئے اڑان بھری، پورے ملک کی توجہ ن لیگ پر مرکوز ہوگئی، لہذا ن لیگ نے جماعت کی ایک بڑی بیٹھک کا اعلان کردیا، اس بیٹھک سے اور کچھ تو ثابت نہیں ہوا البتہ ن لیگ کی اس بیٹھک کے بعد شہباز شریف کی میڈیا کے روبرو گفتگو کو پارٹی کا اعلامیہ تصور کر لیا گیا جبکہ شہباز شریف نے کوئی خاص بات نہیں بتائی اور اتنے پر اکتفا کیا کہ نواز شریف نے ماضی میں پاکستان کو ترقی دی، آئندہ پاکستان مقررہ تاریخ کو آئیں گے اور ملک کو ایک مرتبہ پھر شاہراہِ ترقی پر گامزن کرینگے۔ گویا شہباز شریف اور ن لیگ کے بیانیے میں ازسر نو تبدیلی سامنے آ گئی ہے، جس سے جماعت کے ووٹر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی قریب میں بھی نواز شریف ،ووٹ کو عزت دو، کے بیانیے پر بار بار قلا بازیاں کھاتے رہے ہیں، جس سے ن لیگ کی عوامی مقبولیت متاثر ہوتی رہی اور عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پنجاب جسے ن لیگ اپنا سیاسی گڑھ گردانتی ہے؛ یہاں پی ٹی آئی کے پنجے عوامی حلقوں میں مضبوط ہوئے ہیں، اب ن لیگ کی حالیہ قلا بازی نے متعدد سوالات کو جنم دیدیا ۔ عام ووٹر بھی مشاہدہ کر رہا ہے کہ نواز شریف چور دروازے کے سوا اقتدار میں نہیں آسکتے، عام الفاظ میں درپیش حالات کی کیفیت بیان کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی حاکمیت کے تاثر میں کمی واقع ہوئی ہے، پیپلز پارٹی اس کشمکش میں بھی خسارے میں نہیں، بلاول کو کسی طور پر آئندہ انتخابات یا مینجمنٹ کی صورت میں وزیر اعظم نہیں بنایا جائیگا، آصف زرداری طاقت کے اس کھیل میں کسی حد تک قبول ضرور ہیں لیکن ان کو فرنٹ فٹ پر ڈسپلے میں رکھ کر شدید تنقید کا سامنا کرنے کی جسارت کوئی نہیں کرے گا، ن لیگ کو بھی اس صورتحال کا کسی حد تک فائدہ ہے مگر مزاحمتی بیانیے کی صورت میں مخلوط حکومت قائم کر کے سنجرانی ٹو کی آپشن کو کون نظر انداز کرسکتا ہے۔ نیب قوانین میں ترامیم کیس کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کو اس بات میں اپنی سیاسی بقا نظر آتی ہے کہ بلاول ن لیگ پر تنقید کریں اور آصف زرداری پی ڈی ایم کی بولی بولیں، ن لیگ کو دوسری جانب مفاہمت کی کڑوی گولی نگلنے کے علاوہ بچت کا کوئی دروازہ نظر نہیں آتا، نیب کیسزز کھل رہے ہیں اور مفاہمت کا راستہ عوامی حلقوں میں ن لیگ کو سیاسی موت کے طور پر دکھائی دے رہا ہے، سو ن لیگ کے بدلے بدلے تیور ساری کہانی بیان کر رہے ہیں۔ یہ خواہش کہ اقتدار بھی میسر آ جائے اور ووٹ بینک بھی برقرار رکھنے کیساتھ بڑھایا جاسکے، ممکن نہیں۔ یہی ن لیگ کی لندن بیٹھک کا اصل ایجنڈا تھا، رانا ثناء اللہ جو چاہے کہتے رہیں، آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ چل نہیں سکتا، پی ڈی ایم اتحاد کا ایک اور بڑا مسئلہ جو اس میں شامل جماعتوں کا ووٹ بینک خراب کر رہا ہے، وہ نگران حکومت کی "حسن کارکردگی" ہے، نگران حکومت جب دل چاہتا ہے، بلا جھجک پورے دھڑلے سے پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتی ہے اور عوامی احتجاج پر کہتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، نگرانوں کی ایسی جوابی گفتگو سے عوام میں واضح تاثر ابھرتا ہے کہ سابق پی ڈی ایم حکومت کی ناقص پالیسیوں کا وہ خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں جبکہ عوام کی حالت گذشتہ دو سالوں سے جتنی ابتر کر دی گئی ہے، 76 برسوں میں پہلے کبھی نہ تھی۔ اب یہ دیکھیں کہ نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا اپنا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے، حکومت کی منظوری کے بعد اضافے کا اطلاق ہوجائے گا۔ نیپرا کے مطابق اضافے سے بجلی صارفین پر 160 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، یہ اضافہ مالی سال2022-23 کی چوتھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے، بجلی صافین کو چھ ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، بجلی صارفین اکتوبر 2023 تا مارچ 2024 تک ادائیگیاں کریں گے، جبکہ دوسری جانب نگران وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے ، قیمتوں میں ردوبدل کا جلد اعلان کردیں گے، انھوں نے بھی کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں، اس لئے گیس قیمت کم نہیں کر سکتے، مہنگائی کی شرح میں بھی خاطر خواہ اضافہ سامنے آچکا ہے، مہنگائی کی شرح 38.66 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، عام پاکستانی ان حالات میں بلک رہا ہے اور ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت پورے کا پورا پی ڈی ایم اتحاد اس سیٹ آپ کا حمایتی بنا ہوا ہے۔شہباز شریف کی پھر کون مانے کہ نواز شریف پاکستان آ کر ترقی کا سفر وہاں سے شروع کرینگے جہاں سے چھوڑا تھا۔ ٭٭٭٭٭