تجزیہ:سید انور محمود فیصلہ کن ضمنی انتخابات میں دودھ کی رکھوالی پر بلی بیٹھی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے اچانک ن لیگ پنجابی قوم پرستی کی طرف کیوں مڑ گئی۔کیا آج پنجاب میں کوئی انچارج ہے ؟یا کوئی پوچھے کہ آج پنجاب کا انچارج کون ہے ؟سپریم کورٹ نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کی رضامندی کے بعد فیصلہ کیا کہ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب تک صوبے کے وزیراعلیٰ رہیں گے ،جس شخص کی صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے قسمت کا انحصار ان ضمنی انتخابات کے نتائج پر ہے ، اس سے ووٹنگ کے دن تک غیر جانبدار رہنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟کیا آپ اپنی بلی سے اپنے دودھ کے برتن کی حفاظت کیلئے کہیں گے ؟یہ انسان سے ناممکنات کی توقع رکھنا ہے ،کسی ولی یا فرشتے سے ہی ایسی توقع کی جا سکتی ہے اور حمزہ شہباز ان میں سے کوئی بھی نہیں لیکن چونکہ ہماری سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ کیا ہے ، اس لیے وہ یقیناً بہتر جانتی ہوگی،میرے خیال میں ضمنی انتخابات اسی دن سے متنازع ہو گئے ۔مخالف پارٹی (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کو پولیس نے مختلف الزامات کے تحت حراست میں لیا، گرفتار کیا،ہراساں کیا اور مقدمہ درج کیا،نگران الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے ، کیا وہ یہ سب دیکھ رہا ہے ؟ہم دیکھتے ہیں اینٹی کرپشن پنجاب اچانک متحرک ہو گیا ہے اور ن لیگ کے مخالفین کیخلاف کیس بنا رہا ہے ، تازہ ترین اسلام آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے وصول کی گئی سٹامپ ڈیوٹی میں مبینہ بدعنوانی کے الزام میں شیخ رشید کیخلاف کیس ہے ۔بتایا گیا ہے اس کا تعلق شیخ رشید کی طرف سے ہاؤسنگ سوسائٹی کو بیچی گئی کچھ نجی زمین سے ہے ۔چونکہ میں اس کی تفصیلات سے باخبر نہیں ہوں میں کیس پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔تاہم، یہ وقت اس کو مشکوک بناتا ہے ،میں نے وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں جب شیخ رشید اس کے وزیر انچارج تھے ،ہم نے کئی بار مسائل پر اختلاف کیا،لیکن مجھ سے ایک بار بھی کوئی ناجائز فیور نہیں مانگی گئی،وہ سیاسی طور پر اور بطور وزیر اپنے حلقے میں بہت زیادہ متحرک تھے ،اس تناظر میں ان پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات دیکھنا بہت دلچسپ ہوگالیکن آج میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کے تھیم میں ٹریک کی اچانک تبدیلی پر زیادہ فکر مند ہوں۔ میں اسے ناگوار سمجھتا ہوں،ناگوار کیونکہ پنجاب روایتی طور پر پاکستانی قوم پرستی کا گڑھ رہا ہے یا اسے کم از کم سمجھا جاتا ہے ۔لہٰذا اگر پنجاب کی گورننس کا سرکردہ دعویدار اچانک اپنے مخالف کو پنجاب کا دشمن کہنا شروع کر دے اور ووٹرز سے "پنجاب مخالف" پارٹی (عمران خان) کو صوبے سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دے ، تو ن لیگ کی انتخابی کی مہم میں کچھ تو گڑ بڑ ہے ۔میں یقین نہیں کر سکتا ن لیگ نے اپنی پاکستانی چمک اور رنگت چھوڑ دی ہے ، تو پھر صوبائیت کی اپیل اور ’’پنجاب دشمنی‘‘ کانعرہ کیوں؟صرف ایک وجہ جس کے بارے میں میں سوچ سکتا ہوں وہ ہے اعتماد کی کمی یان لیگ کی صفوں میں بڑھتا ہوا احساس کہ ضمنی انتخابات کوئی واک اوور نہیں ہیں۔ن لیگ نے اس سے پہلے ایک بار اسطرح کی مایوس کن کال کی تھی جب وہ 30 سال قبل پی پی پی سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں ہار گئی تھی۔بہت سے لوگوں کو اس وقت کا نعرہ "جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ" یاد ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہے اسے اس وقت کے ایک اردو بولنے والے سپن ماسٹر نے اس وقت کے پی ایم ایل این کے وزیر اعلیٰ پنجاب کی خدمت میں وضع کیا تھا۔اگرچہ اس سے کچھ وقتی فائدہ ہو سکتا ہے ، لیکن اس سے ن لیگ کی وفاقی حیثیت کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ وفاقی جمہوری پاکستان کے مقصد کو پورا نہیں کرتا،لیکن کسی بھی قیمت پر جیت کے ماحول میں کون پاکستان کاسوچ رہا ہے ۔