برادر ملک افغانستان کرکٹ ٹیم کے باصلاحیت بلے باز ابراہیم زدران کا کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف شاندار کارکردگی کاانتساب یاد رکھئے اور رواں برس جولائی کی یہ خبرسامنے رکھئے جب درجنوں افغان خواتین ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج کرتی پائی گئیں،یہ خواتین اپنے بچوں کی تعلیم اور روزی روزگار کے لئے پریشان تھیں ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں بھارت میں’’مہاجر‘‘ سمجھا جائے، ایک انسان کے طور پر ان کے حقوق تسلیم کئے جائیں ، اس مظاہرے کو رپورٹ کرنے والے بین الاقوامی جریدے فارن میگزین کا کہنا تھا کہ بھارت میں لگ بھگ پندرہ ہزار افغان تارکین وطن موجود ہیں، یہ وہ ہیں جو افغانستان کے مخدوش حالات کے سبب سیاحتی ویزہ لے کر بھارت آئے اور پھر یہیں رہ گئے دستاویزات نہ ہونے کے سبب یہ افغانی بھارت میں یہ بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں، کچی آبادیوں میں چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں جانوروں کی سی زندگی گزارنے والے ان اٖفغانوں کے پاس دکھ مصائب غربت افلاس کے ساتھ اچھے دنوں کی آس امید تھی لیکن بھارتی سرکار کے رویئے سے یہ امید بھی دم توڑتی جارہی ہے، افغان خواتین اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے سراپا احتجاج تھیں لیکن پولیس نے چلتا کردیا ۔ یہ 16ستمبر2023کی بات ہے نئی دہلی میں افغان طالب علم اداس چہروں کے ساتھ ہاتھوں میں پلے کارڈ لئے مظاہرہ کررہے تھے ،یہ سب وہ تھے جنہیں بھارت نے اسکالر شپس دیں، پرنام کرکے ویزے دیئے اور مسکرا مسکرا کر خوش آمدیدکہا لیکن جب کابل میں طالبان نے اقتدار حاصل کیا تو مودی سرکاری نے ماتھے پر آنکھیں رکھ کران سب کے ویزے منسوخ کردیئے اور وہ معزز مہمان جن کے نئی دہلی آنے پر آرتیاں اتاری گئی تھیں، اب ان سے آنکھیں پھیر لی گئی ہیں، وہ احتجاج کررہے ہیں کہ ہم تیرہ ہزار مہمان اب کہاں جائیں ہم بیچ منجدھار میں پھنسے ہوئے ہیں، خداراہمارے مستقبل سے نہ کھیلا جائے ، ہم محض تیرہ ہزار نوجوان ہی نہیں تیرہ ہزار خاندان ہیںہم اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے وطن کی تعمیر نو میں کام آسکتے ہیں، اپنے گھر والوں کو خط غربت سے کھینچ نکال سکتے ہیں لیکن مودی صاحب کی کان پر جوں نہیں رینگ رہی ، 741بلین سے زائد ڈالر کے ساتھ دنیاکی پانچویں بڑی معیشت رکھنے والے سو کروڑ انسانوں کے دیش بھارت میں 19800افغان شہری اور 13000طلباء بوجھ بن چکے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک کم وسائل کا ایسا ملک ہے جسے اپنی سمت بڑھتے خطرات سے چوکنا رہنے کے لئے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ دفاع پر لگانا پڑتا ہے یا پھر قرضو ں کا سود اتارنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے،اس سب کے باوجود پاکستان نے مشکل وقت پڑنے پر افغان بھائیوں کو ویلکم کہا انہیں اپنے سینے سے لگایا ،ساتھ بسایا، ان کی پانچ نسلیںیہاں پروان چڑھیں موجودہ افغان حکومت کے کئی وزراء ہماری طرح اردو بولتے اور سمجھتے ہیں وہ کراچی کی نہاری بھولے ہیں نہ سادہ خوشبو الائچی والے پان کی گلوری کا ذائقہ ، ان کا بچپن کراچی کی گلیوں میں منی بسوں اور مسافر بردار کوچوں پر جھولتے جھالتے گزرا ہے، کراچی پشاور تو سمجھیں ان کا ددھیال ننھیال ہے ہی مگر پاکستان کا کون سا شہر ہوگا جہاں انہوں نے نمازوں کی امامت کی ہو یاکسی امام کے پیچھے کھڑے نہ ہوئے ہوں ، انہیں زخم سرحد پار لگتا تھاا ور مرہم پاکستان رکھتا تھا میں ذاتی طور پر کراچی کے ان اسپتالوں سے واقف ہوں جہاں ہمارے پڑوسیوں کے زخم سیئے گئے اور یہ ہفتوں مہینوں زیر علاج رہے ، اسی وجہ سے وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیںاتنی قربتوں کے باوجود بھائیوں میںکا ایک دوسرے سے شاکی ہونا عجیب ہے نہ خام خیالی،اختلافات بھائیوں میں کیا ماں بیٹے میں بھی ہوجاتے ہیں یہاں افغان مہاجرین کی واپسی پر رنجشیں ہونے لگیں تو تعجب کی کوئی بات نہیں مسئلہ اختلاف کا ہونا نہیں بلکہ رہ جانا اور شدت اختیار کرنا ہے۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے کوئی دن نہیں جاتا جب پاک فوج کے جوان بلوچستان یا کے پی کے میں کہیں نہ کہیں دہشت گردوں کا سامنا نہ کرتے ہوں اتنی اموات تو باقاعدہ جنگ میںبھی نہ ہوتی ہوں گی جتنی ان خودکش دھماکوں اور دہشت گردی میںہوچکی ہیں ایسے میں نگراں وزیر اعظم انوا ر الحق کاکڑ جب یہ کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں اور خودکش دھماکوں میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوا ہے تو اس بیان کو محض اس بناء پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لئے بنیاد بنانے کی کوشش ہے ، یہ کوشش نہیں تلخ حقیقت ہے اگریہ سچائی نہ بھی ہو تو اس سچائی سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مہمان کو بہرحال جانا ہوتا ہے کیا کسی ملک میں کوئی شخص اس طرح رہ سکتا ہے ؟کسی اور کو ملک کو جانے دیجئے کیا افغانستان کسی او ر ملک کے شہریوں کا یہ سہولت دے گا ؟ یہاں بلکہ کہیں بھی آباد افغانوںکو کابل کا قبضہ واگزار ہونے کے بعد خود ہی رخت سفر باندھ لینا چاہئے تھا کہ دو سپر پاورز کو شکست دینے کے بعد اب افغان طاقت اقتدار میں آئی تھی۔ ابراہیم زدران نے چنئی میں اپنی شاندار کارکردگی غیر قانونی افغان تارکین وطن کی بے دخلی سے جیسے نازک تنازعے کے نام کرکے یقیناًنریندر مودی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر ی ہو گی کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ لگے ہاتھوں ان 13ہزار طلباء کا نام بھی لے لیتے جو بھارتی سرکار کی اجازت سے اسکالر شپس اور ویزے لے کر وہاں آئے اور اب وہ غیر قانونی تارکین وطن ہو کر پریشان ہیں کہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟وہ نریندر مودی کویاد دلاتے کہ ان افغان طلبہ کو آپ نے بلایا تھااسکالرشپس دی تھیں اپیل کرلیتے کہ سو کروڑ کی آباد ی ، رقبے کے لحاظ سے دنیا کے ساتویںبڑے ملک اوردنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے پاس چند ہزار افغانوں کو رکھنے کا بھی جگرا نہیں ان کا شکوہ تو بنتاتھا موقع بھی تھا پھر کیوں نہ کیاصرف پاکستان ہی کیوں یاد رہا ؟