برٹش بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بیٹھا ہوا ایجنٹ ٹو گورنر جنرل، جیمز برائون تاجِ برطانیہ کا نمائندہ تھا اور وہ خود کو مکمل طور پر بااختیار دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے خان آف قلات کی ’’نمائشی حیثیت‘‘ بھی پسند نہ آئی۔ خان خدائیداد خان جس نے رابرٹ سنڈیمن سے معاہدہ کیا تھا، اسے راستے سے ہٹانے کے لئے قتل کی سازش کی گئی۔ خان کے تین ملازم مستوفی فقیر محمد اور اس کے بیٹے اس ناکام سازش میں پکڑے گئے اور انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ سازش کی ناکامی پر غصے میں بپھرا ہوا جیمز برائون ایک فوجی دستہ لے کر بیل پٹ پہنچتا ہے اور خان کو اس کے سرمائی ہیڈ کوارٹر ’’بھاگ‘‘ سے بیل پٹ طلب کرتا ہے۔ اسے پہنچتے ہی گرفتار کر کے کوئٹہ پہنچا دیا جاتا ہے اور اسے اپنے بیٹے شہزادہ محمود خان کے حق میں دستبردار ہونے کو کہا جاتا ہے۔ جب وہ انکار کرتا ہے تو پھر اس کے بعد ان سرداروں کا کردار شروع ہوتا ہے،جنہیں انگریز نے مراعات دے کر اپنا وفادار بنا رکھا تھا۔ فوراً ہی ایک جرگہ بلایا جاتا ہے جس میں صرف ریاستِ قلات کے سردار ہی نہیں بلکہ برٹش بلوچستان کے بلوچ سرداران، سردار بگٹی اور مری بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کا اشارہ ملتے ہی تمام سردار متفقہ طور پر خان آف قلات کو معزول قرار دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب خان اپنے سرداروں کو معزول کیا کرتا تھا، اور آج وہ خود انگریز کے دستِ راست سرداروں کے ہاتھوں معزول کر دیا گیا۔ انگریز اب مکمل طور پر بلوچستان کی حکمران ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ تھا اور خان آف قلات صرف ایک نمائشی حکمران۔ بلوچستان کا سردار اب عوام کے لئے مکمل طور پر طاقتور تھا لیکن ایک پولیٹیکل ایجنٹ جو عمومی طور پر انگریز ہوتا تھا،اس کے سامنے اس سردار کی حیثیت ایک چیونٹی کے برابر بھی نہیں تھی۔ لیکن اس جھکنے کے بدلے میں وہ قبیلے کا مطلق العنان فرمانروا بن گیا۔ اس کے پاس لیویز تھی اور مجسٹریٹی کے اختیارات۔ سردار اسی اختیار میں خوش تھا اور اس کے بدلے میں انگریز بلوچستان میں اپنی سلطنت کو مزید مستحکم بھی کرتا جا رہا تھا اور اس کے وسائل سے بھی مکمل طور پر بہرہ مند ہوتا تھا۔ بلوچستان کا معدنی کوئلہ انگریز کے ریلوے کے نظام کے لئے ایک کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ مری علاقے میں کٹھن کے مقام پر تیل بھی برآمد ہو چکا تھا، جسے ریلوے ہی کی ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا۔ کٹھن کے تیل کے ان کنوئوں کا قصہ بھی عجیب ہے۔ سبی ّ کے ریکارڈ روم میں انگریز ڈپٹی کمشنروں کی مرتب کردہ ڈائریاں جنہیں (Personages) کہتے ہیں وہ پڑھنے کی چیز ہیں۔ ان کے مطالعے کے دوران ایک واقعہ میری نظر سے گزرا۔ نواب خیر بخش مری ابھی عنوانِ شباب میں تھا کہ اس کے ہم عمر نواب اکبر خان بگٹی کو قبیلے کا سردار مقرر کر دیا گیا تھا، جبکہ مری قبیلے پر ابھی تک نگران سردار کے طور پر دودا خان مقرر تھا۔ نواب خیر بخش ایک دن انگریز ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اور اسے خود کو سردار بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس نے جواب دیا کہ ابھی تمہاری عمر بہت کم ہے۔ نواب مری نے کہا کہ بگٹی قبیلے کا سردار، اکبر بگٹی بھی تو میرا ہی ہم عمر ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ نے کہا اس نے ڈیرہ بگٹی میں انگریز لیویز کا تھانہ قائم کرنے کی اجازت دی ہے، تم بھی کاہان میں لیویز تھانے کی اجازت دے دو تو پھر ہم تمہیں ابھی سردار بنا دیں گے۔ نواب مری نے انکار کیا اور کہا کہ مجھے میری سندھ والی زمینیں دکھا دو تاکہ میں وہاں چلا جائوں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا تمہاری تو سندھ میں کوئی زمین ہی نہیں ہے۔ اس نے پھر کہا کہ اکبر بگٹی کی تو سندھ میں بہت زمینیں ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا بگٹیوں نے سندھ میں حروّں کے خلاف ہمارا ساتھ دیا تھا، اس کے بدلے میں انہیں زمینیں دی گئیں۔ تمہاری زمینیں صرف بھاگ ٹیل کے علاقے میں ہیں۔ خیر بخش مری غصہ میں تلملایا اور کہا تم لوگ میری زمین سے کٹھن کے مقام سے تیل نکال رہے ہو۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں یہاں کے وسائل نہیں لوٹنے دوں گا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد ہی انگریز برصغیر چھوڑ کر چلا گیا لیکن مری قبائل کا علاقہ آج بھی معدنی وسائل کے حصول کے لئے مشکل ترین علاقہ ہے۔ سبی ّ سے ایک راستہ ہرنائی کی طرف جاتا تھا جسے کٹ منڈائی کا راستہ کہتے تھے اسے مری سردار نے بند کر رکھا تھا۔ تقریباً 114 سال بعد جب میں سبی ّ میں تعینات ہوا، تو اسے بڑی محنت سے کھولا گیا اور ایک سولنگ والی روڈ بھی تعمیر کی گئی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ راستہ دوبارہ بند کر دیا گیا۔ یہی حالت مری قبائل اور پشتون لونی قبائل کے درمیان چمالنگ کی کوئلے کی کانوں کی رہی ہے جو کہ مسلسل تنازعہ کا شکار رہیں اور آج بھی ہیں۔ تمام بلوچ سرداروں میں مری سردار ہی انگریز کے خلاف واحد مزاحمتی علامت کے طور اپنی تاریخ رکھتا ہے۔ انگریز نے قدیم سبی ّ میلے کو نئے رنگ و روپ کے ساتھ ایک ریاستی تقریب کی اہمیت دی تھی اور ہر سال اس میں وائسرائے یا اس کا نمائندہ شریک ہوتا۔ وائسرائے کی بگھی کے آگے گھوڑے نہیں جوتے جاتے تھے بلکہ اسے تمام سردار ’’احتراماً‘‘ کھینچ کر دربار تک لاتے تھے۔ واحد مری سردار تھا جس نے یہ بگھی کھینچنے سے انکار کیا تھا اور نتیجتاً افغانستان میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔ تھوڑے عرصے کے بعد واپس آیا تو انگریز ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرنے گیا تو اس نے اس ملاقات کا احوال اپنی ڈائری میں یوں لکھا ہے، "He is in a better state of mind" ۔ ’’وہ اب بہتر ذہنی حالت میں ہے‘‘۔ بلوچستان پر حکومت انگریز سرکار کے لئے ازحد ضروری تھی۔ پہلے زارِ روس کی آنکھوں میں پیٹر دی گریٹ کا خواب سجا ہوا تھا کہ کسی نہ کسی طرح باسفورس یا بحیرۂ عرب کے سمندر تک پہنچنا ہے۔ اس کے لئے آسان ترین راستہ افغانستان اور پھر بلوچستان تھا۔ زار کی حکومت کے خاتمے اور 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد اس خواب نے ایک انقلابی شکل اختیار کر لی تھی اور اب کیمونسٹ روس دنیا بھر کے مزدوروں کو اکٹھا کر کے، انہیں مزدور کی بادشاہی کا خواب دکھا کر غلبہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بلوچستان کا ساحل جہاں انگریز کے لئے اہم تھا، وہاں روس کے لئے گرم پانیوں تک پہنچنے کا بھی آسان ترین راستہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کو کبھی بھی ایک صوبے کے طور پر نہیں دیکھا گیا، بلکہ ایک تزویری اہمیت (Strategic importance) کے علاقے کے طور پر دیکھا گیا۔ پورے برطانوی ہند میں آپ کو کسی سرحد پر بھی پکے اور مستقل مورچے نظر نہیں آئیں گے، سوائے بلوچستان اور کسی حد تک صوبہ سرحد میں۔ صوبہ سرحد کے پشتون چونکہ رنجیت سنگھ کے زمانے تک ہندوستان کی مرکزیت سے وابستہ تھے، اس لئے وہاں انگریز کو اپنا مروّجہ نظام قائم کرنے میں کچھ مشکل پیش نہ آئی۔ افغان جنگوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں اسے کافی زیادہ مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے باقاعدہ خطے کو کنٹرول کرنے کے لئے پختون عوام سے اپنی فوج کی مشہور رجمنٹ ’’فرنیئر فورس‘‘ "F.F" ایف ایف تخلیق دینا پڑی۔ موجودہ آرمی چیف عاصم منیر اسی رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے سرداروں نے انگریز حکمرانوں کو اس قسم کی فکر سے آزاد کر دیا۔ (جاری ہے)