قومی اسمبلی کے201 ووٹ لے کر مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ان کے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب نے 92 ووٹ حاصل کئے۔نومنتخب وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ملکی مسائل کے حوالے سے طویل اظہار خیال کیا۔انہوں نے توانائی بحران، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری، گورننس کے مسائل، عدالتی نظام میں اصلاحات،بجلی و ٹیکس چوری ،گردشی قرضوں ،زراعت ،بیرونی سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں ،دوست ممالک سے تعلقات۔عالمی قوتوں کے ساتھ متوازن تعلقات ،مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے تنازع سے لے کر نوجوانوں کی بہبود اور روزگار کی سہولیات تک پر اپنا وژن پیش کیا۔نومنتخب وزیر اعظم کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی۔ وزیر اعظم کا انتخاب ہوتے ہی چاروں صوبوں اور مرکز میں کابینہ کی تشکیل کا کام شروع ہونے کی امید ہے۔تمام وزرائے اعلیٰ اور خود وزیر اعظم میرٹ کی بالا دستی اور بد عنوانی کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں ،یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی قیادت عوامی مسائل کو اہمیت دے رہی ہے۔قبل ازیں منتخب حکومتیں ایوان میں اور ایوان سے باہر جو وعدے کرتی رہی ہیں ان کی تکمیل کی کبھی نوبت نہیں آسکی۔کم از کم پچھلے چالیس برسوں میں اگر عوامی حاکمیت ، روزگار، کھیلوں کی ترقی، جدید علوم کی ترویج ، عالمی مارکیٹ میں مطلوب ہنر سکھانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے کے لئے ایک ایک قدم ہی بڑھایا جاتا تو آج کی انتشاری حالت دکھائی نہ دیتی۔ جناب شہباز شریف کو اپنی پی ڈی ایم حکومت کے 17 ماہ کے دوران مسلسل معاشی بحران کا سامنا رہا۔ اس عرصے میں نہ تو وہ ڈالر کی اونچی اڑان روک پائے اور نہ ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پا سکے۔ سیاسی طور پر ان کی جماعت کو اس کا فوری نقصان ہوا۔تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ اس بری کارکردگیکی وجہ سے مسلم لیگ نوازضمنی انتخابات میں پنجاب میں بری طرح ہاری اور اس کا اثر حالیہ انتخابات میں بھی عوام کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا۔تجزیہ کاروں کے مطابق شہباز شریف کے لیے حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کے مفادات کو دیکھنا بھی ضروری تھا اس لیے وہ اس طرح کام نہیں کر پائے جس طرح وہ کرنا چاہتے ہوں گے اور اس طرح ان کے بارے میں اچھے ایڈمنسٹریٹر کے تاثر کو بھی نقصان ہوا۔شہباز شریف کی وزیر اعظم کے طور پر نامزدگی کے وقت یہ تنازع بھی اٹھا کہ ان کی جماعت کو حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت کا مینڈیت نہیں ملا تھا۔حکومت بنانے کے لئے مسلم لیگ نواز کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین یا پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک کرنا تھا۔ ایک صورت یہ بھی ممکن تھی کہ پیپلز پارٹی اور آزاد اراکین مل کر حکومت بنا لیتے لیکن بانی پی ٹی آئی نے کسی جماعت سے حکومتی اتحاد بنانے سے انکار کر دیا۔اب صورتحال یہ تھی کہ اگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کا ہاتھ نہ تھامتیں تو نئے انتخابات کی طرف جانا پڑتا۔ملک کے حالات دونوں جماعتوں سے پوشیدہ نہیں اس لئے پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کو وزیر اعظم کا ووٹ دینے کا اعلان کردیا تاہم اپنا صدر ، ڈپٹی سپکیر قومی اسمبلی ، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیئر مین سینٹ لانے کا مطالبہ بھی کردیا۔صوبوں کے گورنر لگانے پر بھی ایک فارمولے پر اتفاق ہو چکا ہے۔تاحال مسلم لیگ کی قیادت کی خواہش کے باوجود پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے معذرت کر رکھی ہے ،مبصرین کا خیال ہے کہ مشترکہ خطرات کا احساس اور قومی کردار پر اتفاق جلد ہی پیپلز پارٹی کو حکومت میں شرکت کے لئے آمادہ کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے، یہ بجلی کے نرخوں میں ہونے والا ہوش رْبا اضافہ ہے، بجلیکے شعبے میں اس وقت گردشی قرضہ 2300 ارب روپے تک پہنچ چْکا ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ 3800 ارب روپے کی بجلی فراہم کی جاتی ہے مگر اس کی قیمت وصولی صرف 2800 ارب روپے ہے۔ اس سے اندازہ کریں کے ایک ہزار ارب روپے کا فرق ہے، جس کی مالیت آج کے ریٹ کے مطابق ساڑھے تین ارب ڈالر بنتی ہے۔وزیر اعظم اس سلسلے میں اگر با اثر سیاستدانوں اور کاروباری افراد کی جانچ کروائیں تو بجلی چوری روکی جا سکتی ہے۔ یہ نقصان پوارا کرنے کا دوسرا طریقہ آئی پی پیز سے سابق حکومتوں میں کئے گئے معاہدوں کا معاملہ ہے جن سے فائدہ اٹھانے والے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے حامی رہے ہیں۔ان معاہدوں میں سے کیپیسٹی پے منٹ والی شرط ختم ہونی چاہئے۔شہباز شریف نے اپوزیشن کے نعروں میں اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ گردشی قرض کا یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اور اس سب کی وجہ بیڈ گورننس رہی ہے، ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اتنی رقم سے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں درجنوں نئے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے، غریب اور مجبور کو دوائیاں مفت تقسیم کی جا سکتی ہیں۔نو منتخب وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے لئے مساوی مواقع،دوست ممالک کے شہریوں کے لئے ویزہ فری انٹری اور سی پیک منصوبوں کے حوالے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا۔سب سے اہم یہ کہ انہوں نے اپوزیشن کو مفاہمت کے معاہدے کی پیشکش کی ہے۔وزیر اعظم کا انتخاب اور ان کی ترجیحات سے معلوم ہوتا ہے وہ پورا نظام بدل کر اسے عام آدمی کی خدمت پر مامور کرنے کے خواہاں ہیں ۔عوام منتظر ہیں کہ وہ اپنے قول کو کب نبھاتے ہیں؟