ملک میں گورننس‘ نظامِ حکمرانی کے بارے میں ایک عمومی بے اطمینانی پائی جاتی ہے ۔ معاشرہ کے مختلف طبقات کی کچھ مشترکہ اوربعض اَلگ اَلگ شکایات ہیں۔ مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ فہرست خاصی طویل ہے۔ مثلاًملک میں نظامِ انصاف مؤثر طریقے سے کام نہیں کررہا۔ تنازعات کے فیصلے ہونے میں بہت طویل عرصہ لگ جاتا ہے ۔ بہت پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے ۔نچلی عدلیہ میں کرپشن ہے۔ پولیس عام آدمی سے رشوت لیے بغیراُسکی داد رسی نہیں کرتی‘امیر اور بااثر لوگوں کے حق میں کام کرتی ہے۔اس میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ تفتیش میں بددیانتی کی جاتی ہے۔ پولیس اور عدلیہ ہی نہیں کوئی بھی حکومتی محکمہ عوام سے رقم بٹورے بغیر حرکت میں نہیں آتا‘ناجائز لین دین کے بغیر کام نہیں کرتا۔ اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسروں کی بھاری اکثریت رشوت خوری‘کمیشن خوری کو اپنا شعار بنا چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیںہر برس سینکڑوں ارب روپے کے ترقیاتی کام کرواتی ہیں لیکن اس خطیر رقم کا چوتھائی سے نصف حصّہ سیاستدانوں‘ افسروں اور ٹھیکیداروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ جو کام ایک سو روپے میں ہونا چاہیے وہ دو‘تین سو روپے میں کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جو کام کیا جاتا ہے وہ انتہائی غیرمعیاری ہوتا ہے ۔ معاملہ صرف مالی بددیانتی کا نہیں بلکہ ایمان داری سے کام نہ کرنے کا بھی ہے۔ جو سرکاری ملازمین ایسے عہدوں پر نہیں جہاں رشوت کھائی جاسکے وہ عمومی طور پر کام چوری کے مرتکب ہیں۔ جیسے سرکاری ہسپتالوںمیں ڈاکٹر‘ نرسیں اور اسکولوں‘ کالجوں کے اساتذہ ۔ سرکاری ہسپتالوں میںعام طور پر مریضوں سے بدسلوکی کی جاتی ہے‘ توجہ سے علاج نہیں کیا جاتا ‘ مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔سینئر ڈاکٹر تنخواہ سرکار سے لیتے ہیں لیکن کام صرف اپنے نجی کلینکوں اور ہسپتالوں میں کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میںاساتذہ تدریس میںدلچسپی نہیں لیتے بلکہ اپنی توانائیاں پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے پر صرف کرتے ہیں۔ سرکاری تنخواہ ایک طرح سے لگا بندھا وظیفہ ہے جو انہیں ہر ماہ باقاعدگی سے مل جاتا ہے۔ تاہم‘ ہر محکمہ میں لگن سے‘ خدمت کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے والے‘ دیانت دار لوگ بھی موجود ہیں لیکن انکی تعداد بہت کم ہے۔ رشوت خور‘ کام چور غالب آچکے ہیں۔ کوئی حکومت بھی عوام کو درپیش ان مسائل و مشکلات کو مکمل طور پر حل کرنا تو دُور کی بات ہے انہیں کم بھی نہیں کرسکی۔ فوجی حکومت ہو یا سویلین ‘ سب کا ریکارڈ ایک جیسا ہے۔ حکومتی نگرانی میں چلنے والے ہر ادارہ کا ستیا ناس ہوچکا ہے۔قومی ائیر لائن پی آئی اے ‘ پاکستان ریلوے‘ پا کستان اسٹیل کے خسارے پورے کرنے کیلیے غریب قوم کے ٹیکسوں کی رقم سے سالانہ سینکڑوںارب روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ گھی‘ تیل اور روزمرہ استعمال کی اشیا پر ٹیکس لگا کر عوام کاخون چُوس کر اِن سفید ہاتھیوں کو پلایا جاتا ہے۔ ریاست کی عملداری کمزور ہوچکی ہے۔حکومت پالیسیاں بناتی ہے لیکن اِن پر عمل درآمد نہیںکرواپاتی۔ ظاہر ہے جب چاروں طرف ہڈحرامی اور بددیانتی کا دور دورہ ہے تو قوانین ‘ اصول و ضوابط کی پاسداری کیسے ممکن ہے۔ برین ڈرین کی ایک قسم ملک کے اندر بھی ہے۔ پسماندہ علاقوں‘ چھوٹے شہروں اور دیہات کے باصلاحیت افراد جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیتے ہیں تو وہ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر ملک کے پانچ‘ چھ بڑے شہروں کا رُخ کرلیتے ہیں‘ اپنے آبائی علاقوں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہوجاتے ہیں۔سبب یہ ہے کہ پاکستان میں سارا اختیار و اقتدار پانچ بڑے شہروں میں مرتکز ہے۔ اسلام آباد‘لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ۔ ملتان اور فیصل آباد بھی بڑے شہر ہیں لیکن لاہور‘ کراچی ایسی سہولیات اور اقتدار کے حامل نہیں۔ یہ پانچ شہر بے ہنگم طریقے سے پھیلتے جارہے ہیں۔ یہاں شہری جائیداد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ پسماندہ علاقوں سے ہر برس لاکھوں خاندان ان شہروں کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ یہ صورتحال عام آدمی کیلیے تکلیف دہ ہے لیکن حکمران اشرافیہ کا اس میںفائدہ ہی فائدہ ہے۔ وہ پراپرٹی بزنس کوفروغ دے رہی ہے۔ سرکاری افسران‘ پراپرٹی ٹائیکون اور سیاستدان مل جُل کر پلاٹوں کا کاروبار کررہے ہیں۔ جس زاویے سے بھی دیکھیں ملک کو ایک مخصوص طبقہ نے اپنی آہنی گرفت میں لے رکھا ہے اور ملک کے پانچ بڑے شہر بائیس کروڑعوام پر حکمرانی کررہے ہیں۔ مالی وسائل‘ سیاسی اقتدار پر ایک گروہ اور اسکے مددگاروں کا قبضہ ہے۔ ملک کے ہزاروں چھوٹے شہر اور تقریبا ایک لاکھ سے زیادہ دیہات پسماندگی ‘ محرومی کا شکار ہیں۔ انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلیے بڑے شہروں میں جانا پڑتا ہے اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گورننس‘ نظام حکمرانی کے متعدد مسائل کا تعلق چند شہروں میں طاقت کے ارتکاز سے ہے۔ ملک بھر میں پھیلے سرکاری اداروں جیسے اسکولوں‘ کالجوں اور ہسپتالوں کی ابتر صورتحال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان پر دُور دراز واقع چار صوبائی دارالحکومتوں سے بیٹھ کر مؤثر نگرانی نہیںکی جاسکتی۔ عوام کے مسائل کو کم کرنے کیلیے ضروری ہے کہ سیاسی اور انتظامی اختیارات کو تقسیم کیا جائے ۔نئے صوبے بنائے جائیں۔ضلعوں ‘ تحصیلوں میں بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے۔ ملک کو دس بارہ صوبوں میں تقسیم کرنے سے وفاق مضبوط ہوگا کیونکہ عوام کی نظام حکومت میں شرکت بڑھ جائے گی۔ شہری سہولیات اور دولت چند شہروں تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ زیادہ علاقوں تک پھیل جائیں گی۔ چند بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ کم ہوگا۔ شہری مسائل میں تیزی سے اضافہ نہیں ہوگا ۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کو نظام حکمرانی کو بہتر بنانے کیلیے اس معاملہ پر سنجیدہ بحث اور بات چیت کرنی چاہیے۔بداعتمادی کا ماحول ختم کرنا چاہیے ۔اتفاق رائے پیدا کرکے آئینی ترامیم پر غور کرنا چاہیے تاکہ اقتدار نچلی سطح تک منتقل ہوسکے۔ ملک و قوم کیلیے بہتر ہے کہ پارلیمان کے ذریعے تبدیلی آجائے۔ منتخب قانون ساز ادارے حالات کو جوں کا توں رکھنے کیلیے نہیں بنائے جاتے۔ اگر اسمبلیاں ملکی نظام کو بتدریج بہتر بنانے کیلیے قانون سازی کریںگی تو عوام کا اُن پر اعتماد بڑھے گا۔