معروف بھارتی مورخ رومیلا تھاپر نے ایک کتاب ’سومناتھ‘ لکھی جو 2003 ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔ اِس کتاب کا ترجمہ 2005ء میں پروفیسر ریاض صدیقی نے کیا۔رومیلا کے آباؤ اجداد قندھار کے قریب جلال آباد سے ہجرت کرکے لْدھیانہ میں آباد ہوگئے تھے۔ بہ سِلسلہ ملازمت اْن کے والد لاہور آگئے اورایک سکول کے ہیڈماسٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ لاہور کے مشہور لانس باغ کے قریب اپنا ذاتی گھر بھی بنایا۔برطانوی فوج میں بھی ملازمت کی۔ رومیلا نے لاہور۔راولپنڈی اور پشاور کے سکولو ں سے تعلیم حاصل کی مگر بعد میں راولپنڈی سے وہ پونا چلی گئیں۔ بی اے کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلی گئیں۔ رومیلا کو پرانے زمانے کے مخطوطے پڑھنے کا شوق تھا۔ تاریخ سے دلچسپی کا بہانہ بھی یہی مخطوطے بنے۔ ہندستان آنے کے بعد انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں شعبہ معاصر تاریخ کی بنا استوار کی۔ ہند ِستان کے بٹوارے کے بعد وہ مستقل ہندستان میں آباد ہوگئیں۔ 1993ء میں وہ لاہور آئیں اور پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ ان کے علمی و تحقیقی کارنامے اور تمام دنیا میں مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہندستان کی سرکار نے اْن کو پدم بھوشم کا اعزاز پیش کرنے کا اعلان کیا مگر انہوں نے یہ اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا۔ رومیلا تھاپر نے تاریخ کے حوالے سے ہندستان اور پاکستان میں مقبول اور سچ سمجھے جانے والے بہت سے مفروضوں پر تحقیق کی اور اْن کی لامعنویت کے ٹھوس ثبوت پیش کئے۔ ’سومناتھ‘ میں بھی رومیلا تھاپر نے کئی مفروضوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ پروفیسر ریاض صدیقی نے رومیلا کی کتاب کے اِبتدائی صفحہ پہ لکھا ہے کہ یہ لفظ درحقیقت ’ہنِدستان‘ تھا۔ مگر اکثر رِسالوں اور اَخباروں کے متعلقین اگر ’ہندِستان‘ لکھا بھی ہو تو اْسے اپنی دانِست میں غلط سمجھ کر اِس میں ’و‘ کا اضافہ کردیتے ہیں۔ پروف میں ’’و‘‘ نکالنے کے باوجود کمپوزر اِس کی تصحیح نہیں کرتے ہیں گویا ہم مْسلمانوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ واقعی ہندستان ہندوؤں کا دیس ہے اور وہاں چوبیس کروڑ مسلمان ہیں، ہندستان اْن کا استھان نہیں ہے۔ اِس فتنہ پردارزی کے مْحرک بھی اَٹھارویں صدی کے انگریز حْکام اور لکھاری تھے جو لفظ ہندستان کو Hindoostanلکھتے تھے۔ بیسویوں صدی کے اَوائل میں ہندستان کے مقامی دانشور وں نے اِن ہِجوں کو تبدیل کرکے (Hindustan) لکھنا شروع کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں ہندستان کے اْردو لکھاریوں نے یہ کوشش شروع کی ہے کہ لفظ ’ہندِستان‘ لکھا جائے اور اَب بھی بھارت میں بعض اْردو رِسالوں میں لکھنے والے ’ہندوستان‘ نہیں بلکہ ’ہندِستان‘ لکھتے ہیں۔ سومناتھ کی بات کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ د سویں صدی عیسوی سے لے کر تیرہویں صدی تک گجرات کے بادشاہ چولوکیاہی تھے اْن کو سولنکی کہا جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اپنی راج دھانی اناہیلا واد میں بیٹھ کر حکمرانی کرتے تھے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی موقف ہے کہ سومناتھ کا مندر سب سے پہلے مل راج نے بنوایا تھا یعنی دسویں صدی میں کیونکہ اس کا دیہانت 997ء میں ہوگیا تھا۔ اِسی طرح مہابھارت میں سومناتھ کے مندر کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ دسویں صدی سے پہلے پربھاشا میں سومناتھ یا شیوا کے مندر کا ذکر جو پشوپت شیوا فرقے سے منسوب کیا جاتا ہو کہیں نہیں ملتا۔ دستیاب دستاویزات، تحریری متون اور کتبات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سومناتھ اندرونی اور بیرونی سمندری بیوپار کا بڑا مرکز تھا۔ شہر سے جڑا ہوا اس کا بندرگاہ ویرول اس علاقے کی تین بڑی بندرگاہوں میں ایک تھا۔ نویں صدی سے لے کر پندرھویں صدی تک کا زمانہ پوربی ہندستان میں بیوپار کا بہت بڑا اور فعال مرکز بنا رہا تھا۔ یہ بیوپار جزیرہ نمائے عرب، ہرمز، قے، سراف اور خلیج فارس تک پھیلا ہوا تھا۔ گیارہویں صدی میں البیرونی لکھتا ہے کہ سومناتھ کے ویرول بندر گاہ سے لوگ پچھمی افریقہ میں زنج اور چین تک جایا کرتے تھے۔ تیرہویں صدی میں مارکوپولو لکھتا ہے کہ سومناتھ کے لوگوں کی زندگی کا معمول بیوپار تھا۔ وہ ہْرمز سے بیوپار کرتے تھے جو بہت منافع بخش تھا۔ ہندستانی بیوپاری ایک گھوڑا سرخ سونے کے دو سو بیس دینار میں خریدتے تھے۔ گیارہویں صدی میں بھوج لکھتا ہے کہ تاجک اور خراسانی گھوڑوں کا جواب نہیں تھا۔ ابوالفضل نے عربی گھوڑوں کی بہت تعریف کی ہے۔ مندروں کو مختلف قسم کے تحفے اور عطیات ملتے تھے۔ ان کا تعلق بیوپار سے بھی تھا۔ اِسی لئے مندروں کے انتظامی کمیٹی کے کرتا دھرتا بیوپار کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ بعض مندر براہِ راست بیوپار میں بھی حصہ لیتے تھے اور اس سے جو سرمایہ جمع ہوتا تھا اسے دوبارہ سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ رومیلا تھاپر لکھتی ہیں کہ محمود کے سومنات پہ حملے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ ہندوؤں کی بت پرستی یا منات کی پوجا سے اسے سخت چڑ تھی، دوسری دولت اور مالِ غنیمت حاصل کرنا ہوسکتا ہے؛ تیسری وجہ پوربی ہندستان کو عرب بیوپاریوں کے گھوڑوں کی درآمد میں رکاوٹ ڈالنا ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت تک گھوڑوں کے بیوپار پر غزنی کی اجارہ داری تھی اور عرب بیوپاری اس کے لئے خطرہ بن گئے تھے۔ مہیا دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ سومناتھ مندر اکیلا مندر نہیں تھا بلکہ وہاں کئی چھوٹے بڑے مندر اور مساجد بھی آباد تھیں۔ محمود غزنوی اکیلا حکمران نہیں تھا جس نے سومناتھ پر حملہ کیا بلکہ اِس سے قبل کئی ہندو راجاؤں نے بھی سومناتھ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی تھی۔ ابہیراؤں اور مالوہ کے راجاؤں کے مندروں پر حملوں اور ان کی لوٹ مار کے حوالے کتبات میں بھی ملتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ بھیم دیو نے جو مندر بنوائے تھے وہ ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کی نااہلی اور ناقص انتظامات کی وجہ سے بربا د ہوگئیہوں۔ 1270ء کے ایک کتبہ میں مالک ِ جہاز اور بیوپاری نوارلدین فیروز کا ذکر ملتا ہے جس نے مقامی راجہ سری چند سے گزارش کی جو منظور ہوئی اور نوالدین کو زمین کا ایک ٹکڑا بطور تحفہ دی گئی جس پر مسجد بنوائی گئی۔ کتبہ میں مسجد کے لئے لفظ Mijigiti استعمال ہوا ہے اور اِسے دھرم استھان یعنی مقدس جگہ کہا گیا ہے۔