نواز شریف دسمبر ( 2022 ) کے آخر تک آجائینگے،وہ جنوری ( 2023) کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آئینگے، وہ ابھی پاکستان نہیں آرہے ہیں ، وہ الیکشن سے پہلے پاکستان میں ہونگے ۔یہ اور اسی طرح کے بیانات گزشتہ کئی ماہ سے مسلم لیگ کے رہنمائو ں کی جانب سے مسلسل دیئے جارہے ہیں ۔ ان کی پاکستان واپسی کو دانستہ یا نادانستہ ایک معمہ بنادیا گیا ہے۔ اس کا سیاسی پہلو کچھ بھی ہو تا ہم اسے قانونی طور پر ضرور واضح ہونا چاہیئے۔ نواز شریف جو پاکستان مسلم لیگ ( نواز ) کے قائد ہیں اور تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ پاکستان واپس آنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے ۔ان کی آمد سے متعلق یہ بیانات اور ان میں سچائی کا فقدان محض سیاسی طور پر مسلم لیگ کی کم ہوتی مقبولیت کے بچائو اور اسے متحد رکھنے کی نیم دلانہ کوششیں ہیں اور بس ! یاد رہے وہ اعلی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں اور قیدمیں تھے جب انہیں ان کی شدید بیماری کے باعث سپریم کورٹ سے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی خصوصی اجازت ملی تھی ۔اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بھائی شہباز شریف نے ،جو اب وزیر اعظم پاکستان ہیں ، ان کی جلد واپسی کے لئے کورٹ کے روبرو ضمانت دی تھی مگر اب دو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد سزا یافتہ نواز شریف نہ تو واپس آئے اور نہ اب وہ بیمار نظر آتے ہیں ( جیسا کہ لندن میں ان کی سیاسی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے ) او ر نہ ہی شہباز شریف سے جن کی ضمانت پر عدالت نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی اس سلسلے میں کوئی باز پرس ہوئی ۔پاکستان کے ریاستی اور سیاسی معاملات میں اس طرح کی انہونی( یا انہونیوں) کا ہو جانا کوئی امر غیر متوقع نہیں۔ پاکستان میںسیاسی اور ریاستی اداروں کا طرز عمل بالعموم آئین اور قانون کی کتابوں میں درج اصولوں اور ضابطوں کے بجائے شخصیات ،حالات اور ضروریات کے تحت اختیار کیا جاتا ہے۔جس سے معاملات ہمیشہ الجھے ہوئے اور پیچیدہ ہی رہتے ہیں۔صورت حال کی یہ دھند جس میں حقیقت اور سچ عوام کی آنکھوں سے اوجھل رہے مقتدر سیاسی اور ریاستی قوتوں کے لئے سود مند رہتی ہے۔ پاکستان اس وقت جن معاشی، سیاسی اور سماجی مشکلات سے دوچار ہے ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد اور تین بار وزیر اعظم کے منصب پر رہنے کے بعد یہ ان کی قومی ذمہ داری ہونی چاہیئے تھی کہ وہ اس وقت ملک میں عوام کے درمیان ان کی داد رسی کے لئے موجود ہوتے ۔ اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کرتے ۔ اس کے تحرک کا سبب بنتے۔ عدالت نے انہیں جو رعایت اور سہولت دی تھی اس کا پاس کرتے ہوئے کم از کم مدت میں واپس آکر عدالت میں خود کو پیش کرتے ۔اس طرح خود ان کا وقار بھی باقی رہتا اور عدالت بھی اپنے فیصلے پر نادم ہونے سے بچ رہتی مگر یہ سب تو اس وقت ہوتا جب انہیں قانون کی بالا دستی اور اس کی اطاعت عزیز ہوتی ۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ ملک کے قوانین کا ان پر بھی اطلاق ہو۔ اگرچہ ملک کے آئین میں واضح ہے کہ تمام شہری قانونی طور پر مساوی ہیں ۔ قاـنون کی نظر میں سب برابر ہیں مگر عملا صورت حال اس کے برعکس ہی ہے ۔نواز شریف کی ملک سے طویل غیر حاضری ( فرار ) کا معاملہ ایک قانون پسند شہری سمجھنے سے قاصر ہے ، وہ جو قانون کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور عدالت کا احترام اپنی ذمہ داری ، اس صورت حال میں خود کو کس طرح مطمئن کریں ؟ حکمران جب تک خود قانون پر عمل پیرا نہیں ہونگے ملک میں قانون کی عملداری کو کیسے ممکن بنائیں گے۔نواز شریف کی وا پسی نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ قانونی اور عدالتی سطح پر بھی ایک ٹیسٹ کیس بن چکی ہے۔سیاسی سطح پر ان کی ملک سے غیر موجودگی سے اب ان کی جماعت کے اندر بے چینی اور یاسیت جنم لے چکی ہے ۔ اس بات کو نواز شریف نے بھی محسوس کر لیا ہے جس کا ازالہ انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو جماعت کے سینئر نائب صدر جیسے ایک اہم عہدے پر فائز کراکر کیا ہے تاکہ جماعت میں ان کی گرفت کمزور نہ ہونے پائے مگر ان کا یہ قدم ملک کی موجودہ بدلتی سیاسی صورت حال میں ان کے لئے زیادہ مفید نہ ہوسکے گا۔ان کے باہر رہنے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اپنی مقبولیت اور جماعت پر اپنی گرفت کمزور کرتے جارہے ہیں ۔ ان کے سیاسی سود و زیاں سے قطع نظر ہماری توجہ ان کے واپس نہ آنے کے قانونی اور عدالتی پہلو پر ہے۔ اس ضمن میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں یا اٹھائے جاسکتے ہیں ان کے جوابات متعلقہ اداروں پر قرض ہیں ۔قانونی صورت حال کی تفہیم تو ذمہ دار ادارے ہی کر سکتے ہیں، ان کی واپسی کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے کیسے انہیں اور ان جیسے با اثر اور مقتدر لوگوں کو قانون کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے اس کا واضح ہونا ضروری ہے۔ یہ انصاف اور قانون کو نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ایک آزمائش ہے ۔ریاست کی ترقی اور اس کا استحکام ،خواہ وہ سیاسی ہو یا معاشی ،انتظامی ہو یا آئینی قانون کے بلا امتیا ز اور موثر نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ۔جب تک سماج کے مقتدر طبقات قانون کی گرفت میں نہیں آئینگے ،انہیں ان کے جرائم پر قرار واقعی سزا نہیں ملے گی ریاست کی ترقی کا سفر محض ایک سراب ہی رہے گا جس میں گمان تو یہ ہو رہا ہو کہ سفر کی رفتار بھی تیز ہے وقت بھی گزر رہا ہے مگر منزل کا دور تک کچھ پتہ نہیں ۔ سب سے زیادہ ستم زدہ پہلو یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اب بھی ان ہی سیاسی قائدین کی رومانویت میں گرفتار نظر آتی ہے وہ اس فریب سفر اور قیادت کے سراب کو تقدیر کا جبر سمجھ کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت سے دو چار نظر آتی ہے ۔مگر کب تک ؟ یہ کیفیت باقی رہ پائیگی ۔عقیدت اور عصبیت کی دیواروں کو بہرحال ٹوٹنا تو ہے !!