پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ دہشت گرد کاروائیوں سے متاثر ہے ۔ کالعدم تنظیموں نے ملک میں بے امنی و خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کی جس وجہ سے مخصوص قوتوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے سفارت خانے کو ملک شام میں نشانہ بنانے کا عمل، ایران کے لئے واضح چیلنج تھا کہ وہ اسرائیلی اقدام کا بھرپور جواب دیتا ہے یا نہیں بالآخر ایران نے اسرائیل پر 200سے زائد ڈرون حملے کردیئے اور اس کی جنگجو تنظیموں نے بھی اسرائیلی مفادات کو زک پہنچائی ۔ اس ضمن میں کئی ممالک سے ایسے جنگجوملیشیا ء کی سر پرستی بھی ہے جنہیں مذہبی مقامات کی حفاظت کے لئے بھرتی کرکے مشرق وسطیٰ بھیجا گیا ۔ اس ضمن میں فاطمین بریگیڈ اور شام جانے والے مذہبی مقامات کی حفاظت کے نام پر رضا کار بھیجے گئے ، ان میں ایک معروف جنگجو تنظیم لشکر زینبیون بریگیڈ بھی شامل ہے ۔ بالاآخرٹھوس شواہد کی بنیاد پر نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے تنظیم لشکر زینبیون بریگیڈ کو کالعدم قرار دے دیا اور پابندیاں بھی عائد کردیں۔زینبیون بریگیڈ کو گزشتہ مہینے 29 مارچ کو اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997ء کے شیڈول ون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یوں یہ ان 79 تنظیموں میں شامل ہو گئی ہے جنہیں اگست 2001 ء سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اب زینبیون بریگیڈ ان 80 تنظیموں میں سے ایک ہے جنہیں وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا ہواہے۔ اس فہرست میں متعدد بدنام زمانہ گروہ شامل ہیں، جن پر جنرل مشرف کے دور میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ان تنظیموں کا تعلق مختلف دہشت گردانہ سرگرمیوں سے رہا ہے، جس میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ اورپراکسی وار کے لئے کرائے کے فوجیوں کی بھرتی شامل ہے۔پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق اموات میں حالیہ اضافہ، جو کہ 2019 ء میں 365 سے 2023ء میں کم از کم 1,438 ہو چکے ہیں، نیکٹا کے فیصلے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی کنٹری رپورٹس آن ٹیررازم 2022ء میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن اس نے ابھی بھی تمام دہشت گرد تنظیموں کو بلا تاخیر یا امتیاز کے ختم کرنا ہے۔ اب باقاعدہ طور پر نیکٹا کا کالعدم زینبیون بریگیڈ اور دیگر تنظیموں پر پابندی لگانے کا اقدام پاکستان کے اس عزم کو پورا کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک میں کسی مسلح ملیشیا کو کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ نیکٹا کا کالعدم تنظیموں کے خلاف حالیہ اقدام دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں درست سمت میں ایک قدم ہے۔ تاہم، یہ یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ ان پابندیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے اور ان بنیادی مسائل کو حل کیا جائے جو ان تنظیموں کو جنم دیتے ہیں۔ اس میں انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا، سرحدی سلامتی کو بہتر بنانا اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانا شامل ہے۔عالمی سلامتی کے خطرات کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں، پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی جنگ میںپر عزم ہے۔ اس لڑائی میں سب سے اہم کردار نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کا بھی ہے، جو ایک اہم داخلی سلامتی کا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ 2008ء میں انتظامی طور پر قائم کیا گیا ،نیکٹا کے اختیارات اور مینڈیٹ ایکٹ 2013 ء کے نفاذ کے ساتھ مستحکم کرکے ایک جامع فریم ورک فراہم کیا۔نیکٹا کے مشن کا مرکز خطرے کی تشخیص کی تشکیل ہے، ایک متحرک عمل جس میں مختلف ذرائع سے ڈیٹا، انٹیلی جنس اور معلومات کو اکٹھا کرنا اور تجزیہ کرنا شامل ہے۔ یہ جائزے جامع قومی انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کی بنیاد کے طور پر کام کرتے ہیں، جنہیں نیکٹا احتیاط سے مربوط اور تیار کرتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے ایک رابطہ کار ادارے کے طور پر نیکٹاکے کردار کو مختلف اسٹیک ہولڈرز، بشمول سویلین ایجنسیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی کمی کے بھی چیلنجز کا سامنا ہے، کالعدم افراد اور تنظیموں کی سرگرمیوں کی نگرانی اور ان کو منظم کرنے میں نیکٹا کے کردار کو کالعدم تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی کے نفاذ کے لیے قانونی فریم ورک کی کمی کی وجہ سے چیلنج کیا گیا ہے۔ نیکٹا ممنوعہ افراد اور تنظیموں کی فہرست کو برقرار رکھتا ہے، لیکن کالعدم تنظیموں کے لیے،اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی کا نفاذ اکثر غیر موثر رہ جاتا ہے کیونکہ کالعدم تنظیمیں نام بدل کر اپنی سرگرمیاں ختم نہیں کرتیں بلکہ انتخابات تک میں حصہ لیتی ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑی قومی سیاسی جماعتوں کی ساتھ اتحادی بھی بن جاتی ہیں۔ نیکٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومتوں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ڈیٹا اور انٹیلی جنس پر انحصار کرتا ہے، لیکن اس معلومات کو شیئر کرنے میں اکثر تعاون اور ہم آہنگی کا فقدان آڑے آجاتا ہے۔ نیکٹا کو پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے چیلنجز میں اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کا فقدان، وسائل اور صلاحیت کی ناکافی، تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اور پابندیوں کے نفاذ کے لیے قانونی فریم ورک کا فقدان، درست اور بروقت ڈیٹا اور انٹیلی جنس تک رسائی کا فقدان، اور وسائل دہشت گردی اور انتہا پسندی پر تحقیق اور مہارت شامل ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ نیکٹا کے پاس پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری وسائل اور مدد موجود ہے۔مشرق وسطیٰ کے حالیہ تناظر میں نیکٹا کا کالعدم تنظیم پر پابندی عائد کرنا سفارتی دور اندیشی قرار دیا گیا ہے۔