انتخابات اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی سیاسی محاذ پر موضوع سخن ہیں، سابق پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ اگست میں اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل ہی ایسی باتیں سیاسی حلقوں میں زیر بحث آ چکی تھیں کہ ائندہ انتخابات فروری 2024ء میں منعقد ہونے کی توقع ہے، اس ضمن میں غالباً سب سے پہلے سندھ سے منظور وسان نے انکشاف کیا کہ عام انتخابات فروری 2024ء میں ہونگے۔ گو انھوں نے اپنے ذرائع کا نہیں بتایا لیکن بعدازاں الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی کہا گیا کہ فروری سے پہلے انتخابات ممکن نہیں، سابقہ پی ڈی ایم حکومت کی وفاقی کابینہ کا آخری اجلاس 9 اگست 2023ء کو انعقاد پذیر ہوا تھا۔ جس کے بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف نے کہہ دیا تھا کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کے تحت انتخابات ہونگے۔ شہباز شریف نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی اس بات کا احاطہ کیا، جس سے سیاسی حلقوں میں پھیلی قیاس آرائیوں کو تقویت ملی اور پھر تمام تر تبصروں، تجزیوں اور قیاس آرائیوں کو الیکشن کمیشن نے یہ موقف اختیار کر کے سچ ثابت کردیا کہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے تحت عام انتخابات فروری میں ہونگے۔ پی ڈی ایم 13 جماعتوں کا اتحاد ہے، اس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی بڑی جماعتیں ہیں۔ انتخابی سیاست یا پاور پالیٹکس کہہ لیں؛ اس میں پنجاب کے بعد سندھ کی عددی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی، ن لیگ پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ کو اپنا پاور بینک تصور کرتی ہے۔ حکومت جانے کے بعد پی ڈی ایم میں فطری طور پر اتحاد اس وقت ممکن نہیں۔ اختلافات اور اختلافات کا ڈرامہ اس کے علاوہ موجود ہے مگر پیپلز پارٹی کو اب نظر انداز کیے جانے کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی شروع دن سے دامے درمے سخنے 90 روز سے آگے انتخابات لے جانے کے عمل کی مخالفت کر رہی ہیں۔ جس روز مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اعلان کیا کہ نواز شریف 21 نومبر کو پاکستان واپس لوٹیں گے، اس سے دو روز پہلے بلاول بھٹو زرداری اندرون سندھ انتخابات کے حوالے سے عوامی رابط مہم پر نکلے۔ الیکشن کمیشن نے 90, 120 یا جب بھی الیکشن کروانے ہیں، کم از کم انتخابی شیڈول کا تو اعلان کیا جائے، اسی رات آصف علی زرداری دبئی سے پاکستان واپس پہنچے اور اگلے روز انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق حلقہ بندیوں پر انتخابات آگے لے جانے کا اختیار ہے، اندرون سندھ موجود بلاول سے صحافیوں نے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ن لیگ کا نام لیے بغیر کہا کہ الیکشن کب ہونگے؟ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ صرف ایک جماعت اس کی تاریخ کا بتاتی ہے، انھوں نے آصف علی زرداری کے الیکشن کمیشن کے اختیارات کے بارے میں گفتگو پر کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوری جماعت ہے، میں گھر پر آصف علی زرداری کے حکم کا پابند ہوں، پارٹی میں پارٹی کی سی ای سی موجود ہے، اسی روز رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ن لیگ پر تنقید سوٹ کرتی ہے، پیپلز پارٹی سے کسی قسم کا اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوگی۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر بتایا کہ الیکشن فروری میں ہونگے، ان حالات میں جہاں بلاول پارٹی کی زبان بول کر پیپلز پارٹی کی سیاسی حیثیت کو زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہاں آصف علی زرداری پی ڈی ایم کی بولی بول رہے ہیں، بلاشبہ یہ سارا سیاسی ڈرامہ ہے لیکن ن لیگ اس کھیل میں بڑی حد تک بے نقاب ہوچکی ہے، اس وقت سیاسی حلقوں میں عام موضوع ہے کہ نواز شریف کسی ڈیل کے تحت پاکستان واپس آ رہے ہیں، اے این پی کے سنیٹر عمر فاروق نے چند روز پہلے انکشاف کیا تھا کہ جس طرح نگران وزیر اعظم کے ایشو پر لچک کا مظاہرہ کیا گیا پے، لگتا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ کہہ چکے ہیں کہ نگران حکومت ن لیگ کی حکومت ہے کہ اس میں ن لیگ کے لوگ شامل ہیں، اندرون سندھ گھومنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جماعت کی سی ای سی کا اجلاس پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں آ پہنچا تو اس دوران بھی الیکشن کمیشن اور الیکشن کیلئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا خط زیر غور رہا۔ صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت الیکشن کمیشن کو 6 نومبر کو اسمبلی تحلیل کے 89 ویں روز انتخابات منعقد کروانے کی تجویز دی ہے، انھوں نے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے تجویز حاصل کرنے کا بھی راستہ دکھایا ہے، صدر مملکت کے خط پر پیپلز پارٹی نے بظاہر اس کی مخالف کی ہے اور کہا ہے کہ صدر کے پاس ایسا اختیار نہیں۔ آئینی و قانونی ماہرین بھی صدر کے اس عمل پر منقسم ہیں، پی ڈی ایم کے حامی حلقوں کا خیال ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں بل کے ذریعے ترمیم کے بعد صدر کے پاس یہ اختیار نہیں جبکہ دوسری جانب صدر کو ریاست اور اس کے اداروں کا سربراہ قرار دیکر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آئین 90 روز میں انتخابات کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن مختلف ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقات کر سکتا ہے اور ان سے صاف شفاف انتخابات کے موضوع پر گفت و شنید کرسکتا ہے تو صدر جو ریاستی اداروں کے آئینی سربراہ ہیں، ان سے یہ اختیار کیسے چھینا جاسکتا ہے، جب وہ اپنے خط میں خود آرٹیکل 48 (5) کا حوالہ دے چکے ہیں، اس ساری کشمکش میں سائفر کیس میں چئیرمن پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد ہونے کے فیصلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وکلا کا اس تناظر میں احتجاج بھی سب کے سامنے ہے۔ نواز شریف کی واپسی کی صورت میں اور صدر مملکت کے الیکشن کمیشن کو خط میں انتخابات کی تاریخ کا تجویز کرنا اور سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی تجویز نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کیلئے بھی ایک امتحان ہوگا۔