سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف گزشتہ روز بلوچستان پہنچے ، کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی طرح بلوچستان پر بھی توجہ دیں گے ، گویا یہ اعتراف ہے کہ سابق ادوار میں پنجاب پر توجہ دی جاتی رہی اور بلوچستان پر توجہ نہ دی گئی ، کیا میاں نواز شریف بتانا پسند کریں گے کہ وسیب کو ان کی کتنی توجہ حاصل ہوئی؟۔ نواز شریف کے دورہ کے موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل‘ نیشنل پارٹی‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے30سے زائد رہنمائوں نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا۔ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، نواز شریف کو ہٹانے اور عمران خان کو لانے کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز بلوچستان سے ہوا تھا، باپ کو وجود میں لایا گیا، پھر سب اس کی گود میں جا بیٹھے ۔ سندھ کے بعد بلوچستان ’’کارڈ‘‘ بن چکا ہے، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس سب کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اسلام آبادکے جس علاقے سے گزریں آپ کو نئی آن شان اور نئے پینا فلیکس کے ساتھ’کوئٹہ ہوٹل‘‘ ملیں گے ۔ کائونٹر پر بیٹھے خان سے پوچھیں کہ ہوٹل کی خوبصورتی پر کس نے خرچہ کیا ہے تو وہ ہنس کر بات گول کر جاتا ہے۔ اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں سے غیر ملکی افغانوں کا انخلا بھی رک گیاہے کہ افغانوں کے وارث موجود ہیں جبکہ وسیب کا کوئی وارث نہیں اس لئے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘والا معاملہ ہے۔ نواز شریف کے ساتھ ملاقات اور بلوچستان کے سیاستدانوں کی (ن) لیگ میں شمولیت کے اعلانات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پرانی سیاسی پریکٹس ہے، اگر زیادہ دور نہ جائیں تو 2013ء کے الیکشن میں یہی پریکٹس دہرائی گئی اور پھر (ن) لیگ کو ہٹا کر تحریک انصاف کو لانا تھا تو2018ء کے الیکشن میں یہی پریکٹس دہرائی گئی ۔ بلوچستان میں باپ نے فرمانبرداری کی اور تحریک انصاف کا ساتھ دیا او راب (ن) لیگ کو پیاری کرائی جا رہی ہے اور نواز شریف کے نعرے کے مطابق ووٹ کو عزت دلوائی جا رہی ہے۔ ،قصور کسی کا نہیں بلکہ قصور وار وہ ہیں جو اقتدار کے حصول کے لیے اصول ، نظریات، عزت و شہرت تو کیا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اور جب کان سے پکڑ کر نکالے جاتے ہیں تو باہر آکر شور مچاتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ میاں نواز شریف مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگاتے رہے اور رو رو کر فریادیں سناتے رہے، تحریک انصاف کو کو رونے کی اجازت بھی نہیں ۔ زرداری سے جوہواہاتھ ہوا ہے،پوری دنیا نے دیکھا کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ڈیل پی ڈی ایم سے ہوئی ، بلاول نے آئندہ وزیر اعظم کی پیشگی مبارکبادیں بھی وصول کر لیں مگر عمران خان کے جانے کے بعد نوازا (ن) لیگ کو جا رہاہے، مرکز ، پنجاب ، بلوچستان ، کشمیر، بلتستان اور خیبرپختونخواہ (ن) لیگ کو مل چکا ہے، مرکز اور خیبر پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمن کو آٹے میں نمک برابر حصہ ملے گا ، استحکام والے (ن) کے اقتدار کو مستحکم کرنے کا کام کریں گے۔ زرداری نے زیادہ شور مچایا تو سندھ میں نئے جام صادق پیدا ہوں گے ، سندھ کے آئندہ منظر نامے کو سمجھنے کے لیے بشیر میمن اور (ن) لیگ کی موجودہ قربت کو سمجھنا کافی ہے۔ سیاستدانوں کو تخت پربٹھانے اور نافرمانی پر تخت سے ہٹانے کے معاملے کی جو تاریخ ہے اس میں ڈومیسائل کا فرق واضح نظر آتا ہے، لاہور کے ڈومیسائل پرہ نوازشات کی جاتی ہیں کہ زمین و آسمان کے قلابے مل جاتے ہیں اور اتنی سزا ملتی ہے کہ مجرمان کو سعودی عرب کا شاہی مہمان بنا دیا جاتا ہے یا پھر انگلینڈ بھیج دیا جاتاہے جبکہ ملتان ، میانوالی ، لاڑکانہ کے ڈومیسائل کے ساتھ ہونے والے سلوک بارے بتانے کی اس بناء پر ضرورت نہیں کہ سب جانتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود میں پھر کہوں گا کہ ذمہ دار اقتدار پرست سیاستدان ہیں کہ اقتدار ملنے پر یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ، کوئی کام نہیں کرتے ، ملک و قوم کا نہیں سوچتے ، ایوان میں آئین سازی نہیں کرتے ، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ عمران خان نے 100 دن میں صوبہ بنانے کے وعدے پر مینڈیٹ حاصل کیا مگر ساڑھے تین سالوں میں صوبہ تو کیا صوبہ کمیشن بھی نہ بن سکا اور تو اور صوبہ کمیٹی بھی نہ بنائی جا سکی ، یہی حال (ن) لیگ کا ہے۔ (ن) لیگ نے دو صوبے بہاولپور، جنوبی پنجاب بنانے کا وعدہ اپنے منشورمیں شامل کیا، اٹھائیس جنوری 2019 ء کو اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو نئے صوبے بنانے کا آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کروا یا اور مطالبہ کیا تھا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو صوبوں کا درجہ دیا جائے۔ (ن) لیگ کا کہنا تھا کہ 9مئی 2012ء کو پنجاب اسمبلی الگ الگ قراردادوں میں بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی منظوری دے چکی ہے، پنجاب میں اس میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، حکومت فوری طور پر ترمیمی بل کی منظوری کا عمل شروع کرے۔ آئینی ترمیم بل میں لکھا گیا کہ بہاولپور صوبہ بہاولپور کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہوگا جب کہ جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز پر مشتمل ہوگا، ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے،آئینی ترمیمی بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کیاجائے،آئین کے آرٹیکل 154 میں ترمیم کی جائے جس کے ذریعے نیشنل کمیشن برائے نئے صوبہ جات تشکیل دیا جائے تاکہ حدود اور دیگر امور کا تعین ہوسکے، مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ عمران خان کو ہٹاکر پی ڈی ایم اقتدار میں آ ئی ، پی ڈی ایم حکومت نے ملکی پارلیمانی تاریخ کی تیز ترین قانون سازی کے تمام ریکارڈ توڑے ، دھڑا دھڑ بل پاس کئے گئے ، تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں مگر صوبہ بنانے کا وعدہ کسی کو یاد نہ آیا۔