فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے ہم بھی سوتے تھے کوئی خواب سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش ایاّم سے پہلے پہلے وقت گزر جاتا ہے ہر بار نیا سال آ جاتا ہے مگر ایک ہم ہیں کہ صبح ہوتی ہے شام ہوتی زندگی یوں تمام ہوتی ہے۔ ہر دن ہی پوری زندگی کا استعارا ہے۔نہ رات اپنی نہ دن ہمارا ہے سب کچھ خواب ہی تو لگتا ہے وہی کہ جو کہا گیا کہ انسان کہے گا کہ بس دنیا میں ایک دو پل رہا اور پھر واقعتاً اک پل کا بھروسہ نہیں ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعد اتنی سی بات ساری ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ اپنے سال شمار کرتے ہیں اور ناسمجھ اتنے کہ کم ہونے والا برس ہماری سالگرہوتا ہے۔ ایک شور برپا ہے کہ نیا سال آ گیا مگر ایک پرانا بھی تو ہو گیا۔بات تو تب ہے کہ ہم میں کوئی بہتری آئے وہی کہ جس کا آنے والا کل گزرے کل سے بہتر ہو تو وہ خوش ہو مگر ادھر تو روز ہی یہی رونا ہے کہ روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے۔یہ شعر حضرت جون کا ہے ہماری تنزلی بھی سب کے سامنے ہے ہم نے تو انگریزوں کی بنائی چیزیں بھی برباد کر کے رکھ دیں۔ ہاں ان کے قوانین بحال رکھے کہ وہ رعایا کو غلام بنا کر رکھنے کے لئے تھے اور اس چالاک دشمن نے بھی اپنے معنوی بچے باقی رکھے کہ جن کے ذھن و دل میں احساس برتری کا خناس پیدا کر دیا۔ باقاعدہ ایک نظام چھوڑا جس میں آقا پیدا ہوتے رہیں جو مخلوق کو کیڑے مکوڑے جانیں۔ یہ نئے قانون کی طرح کی بات ہے جو منٹو نے اپنے افسانے میں لکھا تھا۔نیا سال بھی اسی نئے قانون کی طرح ایک مغالطہ ہے ایک وہم ہے اور ایک دھوکہ وہ جو ہمارے لئے الوہی قوانین ہیں اس سے ہم صرف نظر کرتے ہیں ہم میں اتنی بھی صلاحیت نہیں رہی کہ ہم اپنے آپ کو غلام محسوس کر سکیں واقعتاً اگر ہم غلام نہیں تو پھر ہم کس قانون کے تحت رہ رہے ہیں۔وہ قانون تو برصغیر کے لوگوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو قابو کرنے کے لئے بنائے گئے تھے اور ان میں یہ گنجائش بھی تھی جو کہ مغربی مفکرین بھی کہتے ہیں کہ قوانین اصل میں صاحبان حیثیت یا اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتے ہیں اور ان کی مدد کے لئے وکلا برادری پیدا کی گئی۔ غریب آدمی تو یہ عیاشی افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ہم صرف قوانین تک ہی غلام نہیں رہے ہمیں اپنی قومی زبان سے محروم رکھنے والے بھی وہی ہیں جو عرف عام میں افسر کہلاتے ہیں۔ زبان صرف زبان نہیں ہوتی پوری معاشرت ہوتی شناخت اور پہچان ہوتی ہے خود انگریزوں نے فارسی کو دیس نکالا دیا تھا کہ انگریزی کا طوق اپنے مفتوح لوگوں کے گلے میں ڈالا جائے: سیدھی سی بات ہے کہ نہیں ہم اگر غلام جو چل رہا ہے آج بھی یہ کس کا ہے نظام ہم تو زبان اردو بھی نافذ نہ کر سکے منہ میں ہمارے ڈال دی انگریز نے لگام افضل خاں کا ایک شعر ہے میں ہمہ وقت محبت میں پڑا رہتا ہوں‘پھر کسی شخص سے پوچھا یہ غلامی تو نہیں اور ہمیں تو غلامی سے محبت ہے اور پھر اس غلامی میں ہم زگوٹا جن بن جاتے ہیں اور اپنے آقا کے بھیجے ہوئے نمائندہ آئی ایم ایف سے پوچھتے ہیں کہ اب ہم کس کس کو کھائیں اور چالاک ایسے کہ عوام سے پوچھتے ہیں کہ مشکل وقت آن پڑا ہے اب آپ کو قربانی دینا پڑے گی اور یہ ہے زبان بکرے کچھ دیر بے بے کرتے ہیں اور قربانی پر چڑھ جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس وقت اپنا اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے جو کچھ ہو رہا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہو رہا ہے کم از کم اس پورنو گرافک جنگ میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں۔یہ ایک مسلمان یا مومن کا وطیرہ نہیں ہو سکتا۔ہر جگہ ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اس گندے مقصد کے لئے دونوں اطراف میں بٹالینزکام کر رہی ہیں اس وقت ایک زبردست انقلاب کی ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں مخالف کو بھی سپیس دیں قومی اتفاق کے لئے ایک قوم بننا ہو گا ایک تو ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے اور اس پر دہشت گردی نے سر اٹھا لیا ہے اور تیسری جگہ ہماری اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ خارجی اور داخلی سطح پر ایک غیر یقینی صورت حال کا ہمیں سامنا ہے حکومت سے کام ہو نہیں رہا اور اپوزیشن انہیں کام کرنے نہیں دینا چاہتی۔ جنرل سید عاصم منیر نے نیول اکیڈمی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے یادگار شہدا پر پھول بھی چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔میرے ذھن میں تو یہی آ رہا تھا کہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ ایک لمحے کے لئے یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ چند لوگوں کی غلطیوں سے صرف نظر کریں تو فوج کی قربانیاں قابل رشک ہیں اس وقت جو حافظ صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ فوج اپنے پیشے کی طرف ساری توجہ مبذول کرے گی تو یہ ہمارے لئے ایک خوش کن بات ہے اب عوام پر بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ آرمی چیف کے جذبے کی قدر کریں یہ ایک ادارے کا فیصلہ ہے۔سیاسی لوگوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے عیب بتانے اور ان میں سے کیڑے نکالنے کی بجائے اپنی خوبیاں اور کارکردگی عوام کو بتائیں ہم ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا کریں اور اپنی تہذیب دکھائیں۔ مجھے کراچی سے معین قریشی صاحب نے پوچھا کہ آپ بلاول کی بہت بلائیں لے رہے ہیں ۔میں نے ہنس کر جواب دیا کہ جناب مجھے اس لاٹ میں اس جوان بلکہ نوجوان کی گفتگو میں تہذیب اور احتیاط نظر آئی جو بھی بداخلاقی کرے گا یعنی دوسروں پر گند پھینکے گا تو جواب میں پھول ہرگز نہیں آئیں گے اللہ تو معاف کر دیتا ہے پر بندے معاف نہیں کرتے اللہ درگزر فرماتا ہے مگر انسان حساب چکا دیتے ہیں اصل میں میں نے ایک فلم بھی دیکھی ہےGod for gives but i don,t ۔ ایک شعر قارئین کیلئے: دل میں میرے کیسی کیسی خواہش جاگی دھوپ نے استقبال کیا ہے سال نو کا