پاکستان اِس وقت خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے۔ چوبیس کروڑ عوام کا پیٹ پالنا حکومت کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ خوراک میں کمی کی یہ شدت ہماری سالمیت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ملک میں ہر طرف الیکشن کی فضاگرم ہورہی ہے۔ ہر سیاستدان علاقائی اور قومی سطح پر ’سڑکو ں کے جال بچھانے، گھر بنانے، بجلی، گیس، ہسپتال اور دیگر سہولیات‘ کی فراہمی کے نعرے لگا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت بنانے کے بعد یہ نعرے بھی دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے مگر اِن سبھی سیاستدانوں میں سے کوئی ایک بھی سیاستدان یہ نعرہ نہیں لگارہا کہ ’ہم قوم کی خوراک پوری کریں گے، ہم دال، چنا، گوشت، گندم، چاول اور روزی روٹی کیلئے دیگر اجناس کی کمی کو پورا کریں گے‘۔ کسی ایک بھی سیاستدان کے نعروں میں خوراک کا یہ نعرہ شامل نہیں ہے۔آئندہ چند سالوں میں نئی عالمی کرنسی یقینا ’خوراک‘ ہوگی۔ ’مرچ‘ کی مثال لیتے ہیں۔ ’سرخ ہائبرڈ مرچ‘ بظاہر عام سی جنس ہے مگر مرچ اور دیگر مسالہ جات سے بھارت سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالرز کا زر ِ مبادلہ کما رہا ہے۔ چین میں پیپ ریکا مرچ کی کاشت ہوتی ہے جو سرخ مرچ کی نسبت انتہائی کم لذیذ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال قبل چینی قوم کو بھارت کے گرم علاقوں میں کاشت کی جانے والی سرخ مرچ پسند آگئی۔ بھارت کی پیپ ریکا اْولیو کمپنی کے ڈائریکٹر اے پی مْروگن کہتے ہیں کہ چین کو بھارت کی گرم علاقوں میں کاشت کی جانے والی تیجا سرخ مرچ پسند ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سال چین بھارت سے زیادہ سے زیادہ سرخ مرچ بھارت سے درآمد کرنا چاہتا ہے اور سرخ مرچ کی مانگ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مالی سال 2018میں یہ طلب دس ہزار ٹن جبکہ 2020میں یہ طلب ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن ہوگئی۔ جب کہ اگلے ہی سال یعنی مالی سال 2021میں بھارت نے چھ لاکھ ایک ہزار پانچ سو ٹن سرخ مرچ برآمد کی اور آٹھ ہزار چھ سو تیس کروڑ روپے کا زرِ مبادلہ کمایا۔ اِس وقت سب سے زیادہ سرخ مرچ بھارت سے چین کو برآمد کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال بھارت نے مسالہ جات کی مد میں چین سے ستائس ہزارایک سو ترانوے کروڑ روپے کا زرِ مبادلہ کمایا۔ جبکہ 2022میں بھارت نے پانچ لاکھ پچپن ہزار ٹن سرخ مرچ چین کو برآمد کی۔ بھارت میں سپائیسس بورڈ آف انڈیا وزارتِ کامرس اینڈ انڈسٹری کے ماتحت کام کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ اِس بورڈ کے اعداد و شمار دیکھ کر انسان کے ہوش اْڑ جاتے ہیں کہ ہمسایہ ملک بھارت کس تیزی کے ساتھ گلوبل مارکیٹ پہ قابض ہورہا ہے۔اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال جب بھارت نے امریکی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چین میں اپنی برآمدات بڑھائیں تو امریکی کمپنیوں نے احتجاج کیا۔ اِس وقت بھارتی کمپنیوں کی سرخ مرچ، زیرہ اور اِلائچی کی پیداوار میں اجارہ داری قائم ہے۔ بھارت کی ریاست آندھرا پردیش میں گْنتر ضلع مرچ کی مختلف اقسام کی پیداوار اور مختلف ممالک کو برآمدکے حوالے سے مشہور ہے۔سری لنکا، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، جنوبی کوریا، انگلینڈ، امریکہ اور لاطینی امریکہ کو مرچ کی برآمد اِسی ضلع سے کی جاتی ہے۔اب ذرا پاکستان کی طرف دیکھیں تو آپ حیران ہونگے۔ پاکستان میں آرگینک یا نامیاتی اجناس کے فروغ کے لئے کام کرنے اور بین الاقوامی سطح پہ ’سرخ مرچ‘ کی سپلائی چین میں اہم کردا کرنے والے والے پاکستانی جنابِ محمد ندیم اقبال کے بقول گزشتہ سال اگست میں چین کی سب سے بڑی کمپنی لی ٹْنگ نے حکومت ِ پاکستان کو کھلی آفر دی کہ وہ پندرہ ہزار ٹن سرخ مرچ فوری طور پر درآمد کرسکتا ہے مگر پورے پاکستان میں محض پانچ ہزار ٹن سرخ مرچ پائی گئی۔ندیم اقبال کہتے ہیں کہ ہم دالیں، چنا، کھانے کا تیل، آلو، لہسن، ادرک، زعفران اور دیگر اجناس باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ اِن درآمدات پہ سالانہ اربوں روپے کی لاگت آتی ہے۔ جسے ہم روک سکتے ہیں۔ ملک میں محض دالیں لگانے سے سالانہ تین ارب ڈالرز کی درآمدات رک سکتی ہیں۔ ایڈیبل آئل یا کھانے کے تیل کی درآمدات روکنے سے پانچ ارب ڈالرز کی سالانہ بچت ہوسکتی ہے اور یہ کمی ملک میں سویابین کی کاشت کاری سے پوری کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں ادرک مکمل طور پر باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ حتی کہ ہم ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے ٹماٹر باہر سے منگواتے ہیں۔ دوسری جانب حوثی باغیوں نے سمندر میں بڑے کارگو جہازوں کو اغوا کرنا شروع کردیا ہے جس سے کئی ممالک نے شپنگ روک دی ہے۔ اِس عمل کا براہِ راست اثر ہماری درآمدات اور برآمدات پہ پڑے گا۔ پاکستان دال، چنا، کالی مرچ، ادرک، ٹماٹر، گندم اور دیگر اجناس باہر سے منگواتا ہے۔ اگر بین الاقوامی صورتحال چند سال جوں کی توں رہی تو شاید پاکستان اِن اجناس کی کمی کو پورا نہیں کرسکے گاایک ہم ایک ایسے بحران کا سامنا کررہے ہونگے جس میں کوئی دوسرا ملک ہماری مدد نہیں کرسکے گا۔ سرِ دست بڑی سطح پر جاگیردارو ں میں زمینیں تقسیم کیا جارہی ہیں اور اْن پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ صرف گندم اْگائیں مگر دیگر اجناس کی درآمدات بہرحال جاری ر ہیں گی۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو ہم چند ہی سالوں میں بدترین خوراک کی کمی کا سامنا کررہے ہونگے۔ اگر پوری ایمانداری سے کہا جائے تواِس وقت پاکستان کو فور ی طور پر ایک منظم اور مربوط حْب الوطنی سے سرشار قومی ایگری کلچرل پالیسی درکار ہے جس میں کسی بھی بیرونی ڈونر یا ہمیں ’چندہ‘ دینے والوں کا عمل دخل نہ ہوکیونکہ پاکستان کو قرض دینے والے ممالک یا ادارے کسی بھی صورت میں ہمیں خوراک میں خود کفیل نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان کو خوراک میں خود کفیل کرنے کیلئے قومی پالیسی میں کسی بھی Absentee Farmerیا دوسرے الفاظ میں کسی ایسے جاگیر دار کو شامل نہیں کرنا چاہئے جو اسلام آباد کے بنگلوں میں بیٹھ کر اپنے منشیوں سے کاشتکاری کرواتا ہے۔