معزز قارئین!۔ 18 اگست 2008ء کو ، صدر جنرل پرویز مشرف نے عہدۂ صدارت چھوڑ دِیا تھا۔ ٹھیک دس سال بعد 18 اگست 2018ء کو ،صدر مملکت سیّد ممنون حسین نے ، پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے جناب عمران خان سے حلف وفاداری لِیا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی سیّد کہلاتے تھے۔ امیر اُلمومنین حضرت علی مرتضیٰ ؑ نے اپنے ایک گورنر ، مالک بن اُشتر کو ایک خط میں لِکھا تھا کہ ’’ وہ کُرسی ، جِس پر تُم بیٹھے ہو، اگر مستقل ہوتی تو ، تُم تک کیسے پہنچتی؟‘‘۔ 19 اگست 2018ء ( 7 ذوالحجہ) کو ، وزیراعظم جناب عمران خان نے ، الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب کِیا ۔ خطاب کیا تھا؟ اُنہوں نے اپنا اور پاکستانی قوم کا دُکھ بیان کِیا۔ بہادر اِنسان اِس لئے ، اپنا اور قوم کا مشترکہ دُکھ بیان کرتے ہُوئے روئے نہیں ۔ 7 ذوالحجہ (19 اگست 2018ء کو) مولا علی ؑ کے پڑپوتے، حضرت امام حسین ؑ کے پوتے اور حضرت امام حسن ؑکے نواسے ، مسلمانوں کے پانچویں امام ، حضرت امام محمد باقر ؑکا یوم شہادت تھا، جنہیں 7 ذوالحجہ 114 ھجری ( 22 جنوری 733) کو خلیفہ کہلانے والے اُموی بادشاہ ، ہشامؔ بن عبداُلملک ؔ بن مَروان ؔکے دَور میں زہر دے کر شہید کردِیا گیا تھا۔ حضرت امام محمد باقر ؑنے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا شخص بخشا جاتا ہے! ‘‘۔ مصّور پاکستان ‘‘ علامہ اقبالؒ نے ، مِلّت اسلامیہ کے دُکھ /درد بیان کرتے ہُوئے ، اردو اور فارسی میں کئی نظمیں لکھیں۔ ایک نظم کا عنوان ہے ۔ ’’تصویر درد‘‘ جو آپ ؒ نے ولایت جانے سے پہلے’’ انجمن حمایت ِ اسلام ‘‘لاہور کے 19 ویں سالانہ جلسے میں پڑھی تھی ۔نظم کا یہ شعر مقبول ِ عام تھا / ہے … مرا رونا نہیں ، رونا ہے یہ ، سارے گُلستاں کا! وہ گُل ہوں مَیں ، خزاں ہر گُل کی ہے ، گویا خزاں میری! شارحِ کلام ِ اقبالؒ۔ مولانا غُلام رسول مہرؔ کے بقول۔ علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا کہ ’’ میرا رونا سارے باغ ( مِلّت اسلامیہ) کا رونا ہے ۔ میرے رونے کا سبب بھی یہ ہے کہ، باغؔ ۔ آفتوں کا نشانہ بنا ہُوا ہے اور یہ درد ناک حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ، گویا مَیں خود نہیں رو رہا۔ باغ کی حالت مجھے رُلا رہی ہے ، مَیں وہ پھول ہُوں کہ ہر پھول ( ملّت اسلامیہ کے ہر فرد ) کی خزاںؔ میری خزاں ہے ۔ یعنی۔ مَیں اپنی مِلّت کے دُکھ /درد کو اپنا دُکھ درد سمجھتا ہُوں۔ ’’ نیا پاکستان‘‘ وزیراعظم جناب عمران خان ۔’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے کے داعی ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات کے مطابق ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ کے مبلغ و علمبردار۔ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ ۔ عاشقانِ رسولؐ اور غلامانِ رسولؐ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن دو ہندو اُلنسل مسلمانوں کو ، متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن پاکستان بنانے کا اعزاز بخشا۔ علاّمہ اقبالؒ کے جدِّ امجد ، سُپرو، گوت (Sub-Caste) کے براہمن تھے اور قائداعظمؒ کے آبائو اجداد لوہانہؔ ، گوت کے راجپوت۔ ہندوئوں کے باپوؔ حسین احمد مدنی اور ابو اُلکلام آزاد نے ، قیام پاکستان کی مخالفت کی ۔ کانگریسی مولویوں نے تو، علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر رسوائی بھی حاصل کی۔علاّمہ اقبالؒ نے بھی فرمایا کہ۔ ’’ دین ِ مُلّا ، فی سبیل اللہ فساد‘‘ ۔ حضرت قائداعظمؒ کا بھی یہی فرمان تھا کہ ’’ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت ہوگی لیکن، یہاں "Theocracy" ( مولویوں کی حکومت) نہیں ہوگی!‘‘۔ ’’ریاست مدینہ!‘‘ معزز قارئین!۔ آپ نے 19 اگست کی شب ، الیکٹرانک میڈیا پر جنابِ وزیراعظم کا خطاب سُنا ہوگا اور 20 اگست کے قومی اخبارات میں پڑھ بھی لِیا ہوگا۔ جناب ِوزیراعظم ، حکومت میں شامل پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے قائدین کیا کریں گے ؟۔ وہ سب آ پ نے سُنا ہوگا اور پڑھ بھی لِیا ہوگا؟ ۔ وزیراعظم عمران خان کا اہم اور بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ ’’ریاستِ پاکستان‘‘ کو ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ بنانا چاہتے ہیں !۔ بہت اچھی بات ہے!۔ ’’ مواخات!‘‘ وزیراعظم جناب عمران خان جانتے ہی ہوں گے کہ ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ میں یہودیوں کے ساتھ ’’ میثاق مدینہ‘‘ سے پہلے پیغمبرِ انقلاب صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم نے ، مسلمانوں ( انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکّہ) میں مؤ اخاتؔ ( بھائی چارے ) کا رشتہ قائم کرادِیا تھا ۔ پھر انصارِ مدینہ نے ، اپنی آدھی جائیداد/ دولت ، مہاجرین مکّہ میں تقسیم کردِی تھی ۔ میرا خیال ہے کہ ’’ وزیراعظم جناب عمران خان کے لئے یہ منزل بہت دُور ہے ۔ فی الحال اُن کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ۔ وہ پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے اتحادی ، ارب پتی/ کروڑ پتی سیاستدانوں اور غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد پاکستانیوں میں مؤاخات کا رشتہ قائم کرسکیں ؟۔ جنابِ وزیراعظم نے ’’وزیراعظم ہائوس ‘‘ کے بجائے تین بیڈ کے ایک گھر میں رہنا پسند کِیا ہے۔ بقول اُن کے ’’وزیراعظم ہائوس میں 524 ملازمین ہیں ، وہاں 80 گاڑیاں ہیں جن میں سے 33 بلٹ پروف ہیں۔ ہر گاڑی کی قیمت5 کروڑ روپے ہے‘‘ ۔ جنابِ وزیراعظم دو ملازم اور دو گاڑیاں رکھیں گے ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ! جناب وزیراعظم نے کہا کہ ’’مَیں خلیفہ ٔ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ؓکی پیروی میں مَیں کوئی کاروبار نہیں کروں گا! ‘‘۔ یہ بھی بہت اچھی بات ہے !۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی مُدّتِ خلافت ، دو برس، تین ماہ اور گیارہ دن تھی اور آپؓ ، مدینہ کے عام مزدور کی آمدن کے برابر بیت اُلمال سے وظیفہ وصول کرتے تھے ۔ وفات سے پہلے آپؓ نے وصیت کردِی تھی کہ ’’ مَیں نے اپنے دورِ خلافت میں بیت اُلمال سے جو ، چھ ہزار درہم وصول کئے ہیں ، وہ میری جائیداد فروخت کر کے بیت اُلمال میں جمع کرا دئیے جائیں !‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی کِیا گیا۔ معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو، اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق ۔ مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد ، وُکلاء کو دے دیتے تھے ۔ قائداعظمؒ نے ’’گورنر جنرل آف پاکستان ‘‘ کا منصب سنبھالتے ہی ، اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر، اُس قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے (فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ مرحوم )مفتی محمود صاحب کی خواہش کے مطابق 1962ء میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ قائم کی تھی اور صدر جنرل ضیاء اُلحق نے بھی ’’مذہبی سیاستدانوں ‘‘ کی خوشنودی کے لئے ’’فیڈرل شریعت کورٹ ‘‘ قائم کی تھی لیکن ، اِن دونوں اداروں نے ، کبھی اِس طرح کا فتویٰ / فیصلہ نہیں دِیا کہ ’’ اپنے جن وفاداروں کو ، ہندوستان کے بادشاہوں ، انگریز اور سِکھ حکمرانوں نے ، جاگیریں بخش دِی تھیں ۔ قیام پاکستان کے بعد ، کیا اُنہیں بحق سرکار ضبط نہ کرلِیا جائے؟ ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور دوسرے ارکان ، فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے جج صاحبان نے کبھی یہ فتویٰ / فیصلہ نہیں دِیا کہ ’’ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ، غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فیصد عوام (غلامانِ شاہِ مدینہ) کی پست حالت کا ذمہ دار ، صدر مملکت ، وزیراعظم ، گورنرز ، وزرائے اعلیٰ اور اپنی اوقات سے زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والی بیورو کریسی کو ٹھہرایا جائے!‘‘ ۔ غلامانِ شاہِ مدینہ ‘‘ ۔عوام تو ۔ عرصۂ دراز سے انتظار کر رہے تھے کہ ’’کوئی ایسا حکمران آئے جو ’’ریاست پاکستان ‘‘ کو ’’ ریاست مدینہ بنا دے!‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے بہت پہلے ، پاکستان کے ہر حکمران کو غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا نسخہ بتاتے ہُوئے کہا تھا کہ … قوتِ عشق سے ، ہر پست کو ،بالا کردے! دہر میں ، اسمِ محمد ؐ سے اُجالا کردے ! محترم وزیراعظم ، عمران احمد خان نیازی صاحب !۔ ایہہ گھوڑا ، تے ایہہ مدان ؟ ۔