لو جی!یہ مرحلہ بھی طے ہوا بالاآخر نگران وزیر اعظم کا تقرر ہو ہی گیا۔ سینیٹر(ر) انوارالحق  ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم ہوں گے۔نام نہاد اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیر اعظم کی باہمی مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو موقع دیا جائے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تقرر کے بعد راجا ریاض میڈیا کے سامنے سینہ چوڑا کر کر کے یہ کہہ رہے پیں کہ انہوں نے انوار الحق کا نام تجویز کیا۔ راجا ریاض کو خبر ہونا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں ان کی بطور اپوزیشن لیڈر حیثیت صفر تھی اور وہ سولہ ماہ یس مین کے طور پر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا کردار ادا کرتے رہے۔انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سولہ ماہ کے اتحادی دور حکومت میں ان کے ہوتے ہوئے غریب کے منہ  سے نوالہ چھین لیا گیا۔ ہر دوسرے روز پیٹرول کی قیمتوں کے علاوہ گھی آٹا، دال چینی اور سبزیوں کی قیمتوں کو پر لگے رہے۔لیکن راجا ریاض کسی تابعدار کی طرح ایوان کی زینت بنے رہے۔ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہوا، قانون و آئین کی دھجیاں بکھیری گئیں لیکن ان کا کردار محض ایک خاموش تماشائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا اپوزیشن ایسی ہوتی ہے۔کچھ حلقے تو اس بات پر مایوسی کا اظہار اس حد تک کرتے ہیں کہ اس سے بڑا کیا المیہ ہو گا ملک میں بسنے والے پچیس کروڑ لوگوں کا اپوزیشن لیڈر ایسا ہے جسے غریب کی حالت سے سروکار تو دور کی بات ایوان میں عوام کی ترجمانی کا سلیقہ بھی نہیں۔ یہ ایک آئینی مر حلہ تھا جیسے تیسے پورا ہوا۔آئین و قانون کی پاسداری کسے کتنی عزیز ہے وہ تو اہل وطن نے دیکھ ہی لیا۔اب یہ کہہ کر دامن چھڑانا کہ نگران کابینہ میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔تو اطلاع کے لئے عرض ہے آپ کا رول کہانی میں جہاں تک تھا وہ ادا ہو گیا۔اب آپ اپنے حلقے کے لوگوں کو جا کر اپنی کار گزاری کے بارے بتائیں۔ رہ گئی بات نگران وزیر اعظم کی تو عزت مآب  عالی جناب کے سامنے بھی سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت کا ہی ہوگا۔تین ماہ یا اس سے بھی زائد عرصے میں یہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ وہ کوئی آلہ دیں کا چراغ تو لائے نہیں ہوں کے کہ چشم زدن میں سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتی حکومت اپنے تھیلوں میں جہاں حصہ بقدر جثہ بہت کچھ سمیٹ کر لے گئی ہے وہیں  وہ غریب کی آہوں ، سسکیوں اور بد دعائوں کا ایک کثیر کوٹہ اپنے ساتھ لے گئی ۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے نتائج کا علم ہے۔ اس لئے کبھی مردم شماری کا بہانہ تو کبھی کسی اور آئینی سقم کا سہارا۔ ہم اگر اتنے ہی آئین و قانون کے رکھوالے ہوتے تو قلیل عرصے میں چون بل پاس نہ کراتے اتنی دیر میں تو اچھا اچار نہیں پڑتا۔لیکن بقول شاعر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ بس اب اپنے اعمال کے جوابوں کے لئے تیار رہیں۔جس کلنک کا انتخاب آپ نے کیا تھا اس کے نشان دیر تلک رہنے کا امکان ہے۔ بزعم خویش کسی خوش فہمی میں اگر کوئی مبتلا ہے تو رہے۔ انتخابات صاف شفاف نہ ہوئے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ دیر گوں ہو سکتے ہیں۔یادش بخیر عوام قرض اتارنے کے لئے بے چین ہے۔ جو بیجا تھا سو کاٹ لو گے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے بارے جن خیالات و توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ان پر پورا اتریں گے اور ملک میں پھیلی بے چینی، بے یقینی اور افرا تفری کی کیفیت کو کسی حد تک کم کرنے کے لئے ایسے اقدامات کریں گے جن سے حالات میں بہتری آ سکے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جس سے ہر خاص و عام بری طرح متاثر ہے بلکہ معاشرے کی ایک بہت بڑی تعداد اس روز افزوں بڑھتی مہنگائی کے سبب نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔خود کشیوں کا رحجان بڑھ رہا ہے، گھروں میں انتشار پھیل رہا ہے چوری چکاری راہزنی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے معاشرتی برائی پھل ، پھول رہی ہے۔ملک کی معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے یہ سوچنا فضول ہے کہ اس میں کوئی خاطر خواہ کمی آسکے۔ اگر کچھ ہوا بھی تو یہ ہو گا کبھی پیٹرول کی قیمت پانچ روپے کم کر دی جائے اور دوسری طرف کھانے پینے کی چیزوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جائے۔ بس اعداد وشمار کی شعبدہ بازی کا بازار گرم رہے گا۔ انوارالحق کاکڑ وزارت عظمی پر فائز تو ہوں گے لیکن کیا اپنے احکامات پر عمل در آمد کروانے پر قادر بھی ہوں گے۔یہ ایسا سوال ہے جو سیاست کی معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔یہ کیسے مان لیا جائے کہ نوے روز کے لئے آنے والا وزیر اعظم طویل مدت تک اس عہدے پر براجمان رہنے والی حکومتوں کی ان غیر مقبول پالیسیوں کا سائبان جو ملک کے طول وعرض پر سایہ فگن ہے اس کے نیچے کوئی احسن اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجائیگا۔ شہباز شریف کی قیادت میں تیرہ جماعتی اتحاد نے غریب عوام پر جو قیامت ڈھائی ہے اس کے تناظر میں انہیں عام انتخابات میں ووٹ ملنا انتہائی مشکل ہے۔۔۔ وطن عزیز میں اس وقت جو کچھ بظاہر دکھائی دے رہا ہے حالات ویسے ہیں نہیں۔۔۔۔آئین و قانون کا جس طرح مذاق بنایا گیا ہے اس سے نہ صرف سنجیدہ حلقوں میں مایوسی پھیلی بلکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے۔۔۔۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار کے زعم میں تھپکیوں کے ساتھ جو حدیں عبور کی تھیں آنے والے دنوں میں انہیں ان ہی حدود کو عبور کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ رہ گئی بات انتخاب، آئین و قانون کی پاسداری کی تو یہ باتیں بیانات، تقاریر اور ٹاک شوز میں بھلی لگتی ہیں۔۔"انتخابات کب ہوں گے کون کرائے گا، نتائج کیا آئیں گے سب جانتے ہیں جان بوجھ کر آنکھوں پر پٹی باندھ لینے سے خطرات نہیں ٹلا کرتے ہیں ، قومی سوچ، اتحاد و یگانگت، عفو در گزر اور خلوص نیت سے باہم مل کر کئے گئے فیصلے قوموں کے لئے سود مند ہوتے ہیں۔۔۔ورنہ پچھتر سالہ وطن عزیز کی تاریخ بہت سے تلخ تجربات سے بھری پڑی ہے۔۔۔