مَن مسمّی…تین جون دو ہزار تئیس جب یہ سطور مرقوم ہو رہی ہیں، راقم والدہ محترمہ کے ٹھوس کلنڈرانہ اختلاف کے باوجود، محض اپنے پرائمری سکول ماسٹر محمد حسین کے زورِ قلم اور سکول میں داخلے کے سرکاری ضابطے کے سبب، ساٹھ برس کے طلسمی ہندسے کو چھُو چکا ہے۔ ماسٹر محمد حسین جو اس زمانے میںپورے سکول میں اکلوتا اُستاد تھا اور درس و تدریس کے ساتھ ہیڈ ماسٹری، کلرکی، چوکیداری، مالی، خاکروب، کیئر ٹیکر و سکول سے متعلقہ دیگر امور بھی اسی اکیلے فرد کے ذمے تھے، جن میں ٹیچنگ کے نیچے کی بیشتر ذمہ داریاں موافق اور ’غیر نصابی‘ سرگرمیوں کی جانب راغب طلبہ ہی کو انجام دینا پڑتیں۔ پورے علاقے میں تعلیم جیسے خرخشوں سے بے نیازی (جسے بعض غیر ذمہ دار لغت باز قحط الرجال جیسے بھاری بھرکم اور مبالغہ آمیز لفظ سے تعبیر کرتے ہیں) کا یہ عالَم تھا کہ یہ یکہ و تنہا اُستاد بھی زمانے کے رواج کے مطابق تحصیل شکرگڑھ سے درآمد کیا گیا تھا اور ارد گرد واقع دیہاتوں سے آنے والے طلبا کے ہاں باری باری یا بار بار مقیم تھا۔ والدہ مرحومہ کے نہایت پکے پِیڈے فرمان کے مطابق، من مسمّی سولہ پوہ بمطابق تیس دسمبر۱۹۶۴ء کو اپنی خاندانی دائی اماں جنتے کے ہاتھوں، اپنے دادا جی میاں محمد حنیف کے ۱۹۲۲ء میں آباد کردہ صغیرہ گاؤں حنیف کوٹ ( اپنی زمینوں میںبہ عجلت بسائے گئے اس گاؤں کی وجہ دادا جی کے شریکے برادری کے بھائی کا انگریزوں سے ذیلداری قبول کر لینا بتایا جاتا ہے) کے ایک کچے مکان میں ساتویں اولاد کے طور پر تولد ہوا۔ اسی حوالے سے راقم نے اپنی ایک نیم شگفتہ، شریر اور دسمبرانہ غزل میں کہا تھا: آنکھیں کھول کے دیکھ دسمبر/اپنی ہر Mistake دسمبر تُو ہے سال کا آخری بیٹا /تُو تو ہو جا نیک دسمبر تیری ٹھنڈک پی جائے گا/اُن آنکھوں کا سیک دسمبر تیس کو اپنی سالگرہ ہے/آ کے کھا لے کیک دسمبر تفصیل اس ابہام کی یوں ہے کہ ضلع شیخوپورہ کے زمین کے روزگار سے وابستہ دیہاتی والدین کہ جو تقسیم ملک کے لگ بھگ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے، کے ہاں پہلے چار بچے (دو لڑکے: ذوالفقار، اکرم اور دو لڑکیاں: کلثوم، اعجاز) صغیرہ سنی میں انتقال کر چکے تھے۔ ایک بڑی بہن (قیوم بی بی) سلامت تھی اور الحمدللہ اب تک ماں جی کی نشانی کے طور پر حیات ہیں۔ بڑی بہنیں ویسے بھی چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ ریکھ کے حساب سے تقریباً ماں سمان ہی ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد مسمّی کا بڑا بھائی محمد یٰسین (جس کا ۲۰۱۹ء میں کرونا کے سبب انتقال ہوا) بڑی مَنتوں مرادوں کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ دیہات میں اکلوتی نرینہ اولاد کی اہمیت کے پیشِ نظر جس کے جا بے جا لاڈ لڈائے جاتے تھے۔ وہ بھی اسی حساب سے پرلے درجے کا لاڈلا اور من مرضیا تھا۔ کسی بزرگ کے کہنے بموجب پانچ سال اسے مانگے تانگے کے کپڑے پہنائے گئے، سر پہ ایک بالوں کی لٹ (بودی) رکھی گئی۔ یہی انوکھا لاڈلا ،کوڑے کاٹھی پا، مینوں اُتے چا( یعنی گھوڑے پہ زین کس کے مجھے اس کے اوپر بٹھایا جائے) کی ہٹ کے تحت سارا سارا دن والد کے سفید پالتو گھوڑے کے اوپر کاٹھی ڈال کے بیٹھا رہتا۔ کسی وقت گھوڑا میسر نہ ہوتا تو یہ خدمت والد صاحب کو بخوشی و بشانۂ خود انجام دینا پڑتی۔ ایسے وی آئی پی ماحول میں دو سال بعد، مَیں تو رواروی میں وارد ہو جانے والے مطلعِ ثانی اور جنگل میں ناچنے والے مور کی طرح بنا طلب ہی آ گیا، جس کا مسودے کی کاربن کاپی کی طرح کسی نے خاص نوٹس ہی نہیں لیا۔ گھر میں گاہے ماہے کام آ جانے والی فراموش شدہ اور سیکنڈ ہینڈ اشیا کی مانند بس برداشت کر لیا گیا۔ ڈھائی تین سال کی عمر میں والد کی اچانک وفات نے توجہ اور ترجیح کے حساب سے اور بھی چھوٹا کر دیا۔ اس وقت حالات و واقعات سے کامل بے خبری کے سبب ابھی تو یہ کہنے کی بھی عمر اور ہمت نہیں تھی کہ: عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے لاڈلے میاں جب پانچ سال کے ہوئے تو ساتھ والے دادا ذیلدار ہی کے گاؤں (ہوئیکے) کے کچی دیوار والے پکے پرائمری سکول میں نہایت کروفر کے ساتھ داخل کروا دیے گئے، جہاں ماسٹر کی سختی اور چھپڑ کے پانی سے پوچی جانے والی تختی کو تعلیم کی پائیدار کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ (وہ سکول میاں ذیلدار کی دُور اندیشی اور احتیاط کے سبب آج بھی پرائمری ہے کیونکہ انھیں جدید تعلیم کے تسلط کے بعد نئی نسل کے اوقات سے باہر اور روایات سے بیگانہ ہو جانے کا شدید خدشہ تھا۔) ابھی بڑے بھائی کو اعلیٰ تعلیم کی طرف گامزن ہوئے نہایت قلیل عرصہ ہی بیتا تھا کہ اسے برادرِ صغیر کی آوارہ گردی کا خوف، مسلسل بے کار رہنے سے طاری ہو جانے والی کاہلی اور اس کے روشن مستقبل کی فکر ستانے لگی، چناں چہ اُس نے ماں جی کو ضد، اِصرار، لڑائی، بحث، تکرار، رَد و کد اور ’بڑا بھائی باپ سمان‘ والے مذاکرات کے ذریعے برادرِ خُرد کے تعلیمی سفر کے فوری آغاز پہ قائل کر لیا۔ بوسیدہ چار دیواری والے سکول کے پہلے دن مستقبل میں خطرناک ثابت ہونے والے اُس ساڑھے تین سالہ بے بستہ چھوکرے کی حالت گواچی گاں کی سی تھی، جسے پہلے ہی خاندان کی بڑی بوڑھیاں گول مٹول نقوش کے جبر تلے فلسطین کی مانند دبی ناک اور گھمبیر خاموشی کے سبب گاہے ماہے ’میسنا‘ اور ’پھینہ‘ کہہ کے پکارتی تھیں۔ وہ ارد گرد کے التفات سے مایوس ہو کر اپنوں کی بے رُخی اور دنیا کی بے ثباتی پہ غور کرنے کے لیے اور شاید کسی جگنو کی تلاش میں سکول کی ڈانواں ڈول دیوار پہ اداس بلبل کی مانند جا بیٹھا۔ ابھی اس نے سکول کے خستہ دیوار والے صحن اور لوگوں کے پختہ اقدار والے ذہن میں رستہ بنانے پہ پوری طرح تأمل بھی نہیں کیا تھا کہ کسی موہوم روشنی بجائے اسے تیکھی ناک، گہری، غصیلی آنکھوں اور قمیص، تہمد میں بری طرح ملبوس سکول کا مختارِ کل ماسٹر تیزی سے اپنی طرف گامزن دکھائی دیا، جو ہاتھ میں لوٹا لیے سکول میں موجود نسلوں سے آنکھ بچا کے، قریبی فصلوں میں بعض ضروری اشغال فی الفور نمٹانے پہ مائل دکھائی دیتا تھا۔ اس نے گھورتے ہوئے ڈانٹ آمیز انداز میں دریافت کیا: ’کون ہو تم؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘ اس یتیم بچے نے بھی التجا انگیزی کی مدھم لَے کے ساتھ بسورتے، لجاتے، گھبراتے، منمناتے، گزشتہ ڈیڑھ برس سے اسی سکول میں عفیفۂ تعلیم کی زلفیں سنوارتے اور آنے والی پیڑھیوں کی بھلائی کے لیے مسلسل غورو خوض کرتے، اپنے مربی، بڑے بھائی اور گزشتہ شام اپنے متعلق صادر، دو رُکنی خانگی کابینہ کے کسی جلد باز حکومت کی طرح اچانک مسلط کر دیے جانے فیصلے سے مطلع کر دیا۔ ماسٹر کے وقتی حالات کسی مزید بحث میں الجھنے کے متحمل دکھائی نہیں دے رہے تھے، چناں چہ انھوں نے بہ عجلت اسی بھائی والی کلاس میں مستقل بیٹھنے کے زبانی اور یک سطری احکامات جاری کر دیے۔ اسی سعیر فیصلے کے باعث آج بھی رہ رہ کے پروفیسر افضل علوی کا یہ شعر ہماری دل کے دروازے پہ دستک دیتا رہتا ہے: پھینکا جو چاہ میں تو ملی سلطنتِ مصر یوں بھی تو کام آئے ہیں بھائی کبھی کبھی (جاری)