واجپائی جو لوک سبھا میں اپو زیشن لیڈر تھے اور جسونت سنگھ جو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے ،نے تو جیسے لب سی لیے تھے۔ آخر کئی سال بعد ملائم سنگھ یادو نے ہی صحافیوں کو طعنہ دیکر کہا کہ ’’دہلی میڈیا تو بڑا باخبر رہتا ہے، مگر ابھی تک تم لوگوں کو پتہ نہیں چل پایا کہ سخوئی تنازعہ گیا کہاں؟‘‘ معلوم ہوا کہ آدھی ر ات کے وقت جب دہلی سو رہی تھی، تو وزارت دفاع میں ان کے دفتر میں واجپائی اور جسونت سنگھ آ پہنچے تھے۔ ملائم سنگھ نے ہی ان کو میڈیا کی نظروں چھپا کر مدعو کیا ہوا تھا اور اس سودے سے متعلق تمام حساس فائلیں ،مذاکرات کی سبھی تفصیلات اور نوٹس ان کو پڑھنے کیلئے دیے ۔یہ لیڈران رات کے آخری پہر تک وزارت دفاع میں رہے اور فائلوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ پتہ چلا کہ اس وقت کے روسی صدر بورس یلسٹن نے درخواست کی تھی کہ سخوئی کا کارخانہ کئی برسوں سے ملازموں کی تنخواہیں نہیں دے پا رہا ہے اور یہ ان کے ہی حلقہ انتخاب میں ہے۔ چونکہ روس میں انتخابا ت ہو رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت 800ملین ڈالر ٹرانسفر کرتا ہے تو ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں ملیں گی اوران کو بھی دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ملے گی۔ جب تک سودے کی دیگر کارروائی مکمل ہوتی ہے، یہ کارخانہ جہاز بنانے کا عمل شروع کریگا اور یہ رقم حتمی پرائس میں شامل کی جائیگی۔ اس آوٹ ریچ اور شفافیت کے عمل سے ملائم سنگھ نے اس پورے مبینہ اسکینڈل اور اپوزیشن کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ہوا نکال کر رکھ دی۔ ملائم سنگھ کی پیدائش اتر پردیش کے اٹاوہ ضلع کے گنگا اور جمنا دریائوں کے دوآب پر واقع سیفئی گائوں میں 22 نومبر 1939کو ایک متوسط یادو خاندان میں ہوئی۔ ایک اسکول ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلوانی کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے ایک کشتی کے مقابلے میں کئی پہلوانوں کو شکست دی ۔ جب اکثر سیاستدان کامیاب ہوکر دارالحکومتوں کا رخ کرکے اپنی جنم بھومی کو بھول جاتے ہیں، ملائم سنگھ یادو نے اس ساڑھے سات ہزار نفوس پر مشتمل سیفئی گاوٗں کو دنیا کا خوش قسمت ترین گائوں بنا دیا ہے۔ بابری مسجد کی مسماری کے ایک سال بعد جب 1993میں اتر پردیش کے صوبائی انتخابات ہو رہے تھے، تو اس کو کور کرنے کے دوران میں اٹاوہ پہنچا، تو معلوم ہوا کہ ملائم سنگھ یادو اپنے گائوں سیفئی آئے ہوئے ہیں۔ اٹاوہ ضلعی ہیڈکوارٹر سے 23کلومیٹر کا فاصلہ پیدل ہی طے کرنا پڑا۔ کیونکہ معلوم ہو ا کہ صبح اور شام کو اس طرف بس ایک کھٹارہ سی بس چلتی ہے۔جھونپڑیوں، دھول مٹی سے اٹا علاقہ بھارت کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح ہی کسمپرسی کی تصویر پیش کر رہا تھا۔ مگر پچھلی تین دہائیوں میں ملائم سنگھ کی وجہ سے اس گائوں نے ایسا سفر طے کیا ہے، جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہر کو شرمندہ کر سکتا ہے۔ اس چھوٹے سے گائوں میں ایک میڈیکل کالج، نرسنگ کالج، فارمیسی کالج، 800بیڈ کا اسپتال، 500بیڈ کا سپر اسپیشلٹی اسپتال، پوسٹ گریجوٹ کالج، لا کالج، ایک ماڈرن اسکول، انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، فضائی مستقر اور ایک وسیع و عریض اسپورٹس کمپلکس، جس میں کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، کشتی، کبڈی وغیر کھیلوں کی مفت کوچنگ کی جاتی ہے، موجود ہے۔ چار لین کی ہائی وے اور بس ڈپو اور ریلوے اسٹیشن اس گائوں کو صوبہ کے دیگر شہروں سے جوڑتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے مقامی آبادی کی سماجی اور معاشرتی ترقی ہونی ہی تھی۔ جہاں صوبہ کی شرح خواندگی67فیصد ہے، وہاں سیفئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں یہ 85فیصدسے زائد ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر لوک سبھا کے 545اراکین اور ملک بھر کے چار ہزار سے زائد اراکین اسمبلی اور 5,800شہری بلدیاتی اداروں اور دو لاکھ 50ہزار دیہی پنچایتوں کے منتخب اراکین بس اسی طرح اپنے علاقے یا محلے کا خیال رکھیں، تو پورے ملک کی کایا پلٹ ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیاکے دیگر ممالک پر بھی یہ فٹ آتا ہے، کہ اگر منتخب نمائندہ اپنے علاقے کیلئے کام کرناچاہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ جنتا دل کے لیڈر کی حیثیت سے 1989 میں جب وہ پہلی بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے، تولال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر تھی۔ فرقہ پرست عناصر بابری مسجد کی مسماری پر کمر بستہ تھے۔ نومبر 1989 میں جب کارسیوکوں کا ہجوم ایودھیا کی طرف رواں دواں تھا، تو انہوں نے بابری مسجد کی حفاظت کرنے کیلئے سخت کاروائی کا حکم دیا۔ان کا یہ فقرہ بہت مقبول ہوا تھا کہ ’بابری مسجد پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا۔‘ جب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں نے بابری مسجد کی طرف مارچ کرنا شروع کیا تو پہلے تو انھیں لاٹھی چارج سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ قابو میں نہیں آئے تو ان پر گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا۔ اس کارروائی میں کم ازکم 11 کارسیوک مارے گئے تھے۔ اس سے ایک طرف ان کی شبیہ بطور ایک سیکولر رہنما کے مستحکم ہوئی، وہیں دوسری طرف وہ ہمیشہ کے لئے ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آگئے۔ انہیں ’ مولانا ملائم‘ کا خطاب تک دے ڈالا گیا۔ مسلمانوں نے انکو رفیق ملت کا خطاب دیا تھا۔ بابری مسجد تنازعہ کا عروج دراصل ان کی سیاسی طاقت کے عرو ج کا زمانہ بھی تھا۔ جیسے جیسے اس مسئلہ نے زور پکڑا ویسے ویسے ان کی سیاسی طاقت بھی بڑھتی چلی گئی۔وہ طالب علمی کے زمانے میں ہی سیاست سے وابستہ ہو گئے تھے اور سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ 1967 میں پہلی وہ بار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 28 برس تھی۔اس وقت اتنی کم عمری میں رکن اسمبلی منتخب ہونے والے وہ پہلے شخص تھے۔ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انھوں نے ایم اے کی تعلیم مکمل کی اور 38 برس کی عمر میں وہ پہلی بار ریاست کے وزیر بنے۔و ہ کئی بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ ایک بارتو وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے، مگر جنتا دل کی قیاد ت والے اتحاد میں باہمی چپقلش کی وجہ سے وہ اس پوسٹ پر نہیں پہنچ پائے۔ 1989میں وزیراعظم وشو اناتھ پرتاپ سنگھ نے ملائم سنگھ اور لالو یادو کی مدد سے دلتوں کے طرز پر ملک کی پسماندہ ذاتوں کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں 27 فی صد نشستیں مختص کر دیں۔جس نے ملک کی پسماندہ ذاتوں کو نہ صرف اوپر اٹھایا بلکہ انھیں سماجی برابری کا احساس دلایا اور ان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا کی۔اس سماجی و سیاسی اتحاد نے صدیوں پرانی چلی آرہی لارڈ منو کے ہندو دھرم کے اصولوں پر قائم سماج کی ذاتی بنیاد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ظفر آغا کے مطابق اس تبدیلی کا رد عمل ہونا ضروری تھا ۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ اور بی جے پی نے اس سیاست کے جواب میں اونچی ذات اور غیر یادو ہندو ذاتوں کو اکھٹا کرکے ان کو ’ہندو دھرم خطرے میں ہے‘ کی سیاست کا سبق پڑھادیا۔ گو کہ مسلمان ملائم سنگھ کے پکے وٹ بینک تھے، مگر تعمیر و ترقی میں انکو انکے دور حکومت میں کوئی خاص حصہ نہیں ملا۔ مگر یہ سچ ہے کہ اس دوران انہوں نے فرقہ وارانہ سیاست پر قد غن لگا کر مسلمانوں کو تحفظ کا احساس دلا دیا ۔ (جاری ہے)