’’ڈرا ہوا مسلمان ، بھارت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور ہندوئوں کو اس کا احساس ہونا چاہئے۔‘‘ سماج وادی پارٹی کے لیڈر، سوشلسٹ سیاست کے علم بردار اور سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادواکثر یہ الفاظ تقریروں اور انٹرویوز میں دہراتے تھے۔ رواں مہینے کی 10اکتوبر کو83سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پست قد کے اس سیاسی قد آورلیڈر نے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے سیاسی اور سماجی نقشہ پر گہری چھاپ چھوڑدی ہے۔ 90 ء کے اوائل میںاتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور پڑوسی صوبہ بہار میں لالو پرساد یادو کے عروج نے شمالی بھارت میں آئے دن ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر قدغن لگا کر ، مسلمانوں کو بڑی حد تک سلامتی کا احساس کروادیا۔انہوں نے اپنی کمیونٹی یایادو کو کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سحر سے نکال کر ان کو طاقت کا احساس کرواکرمسلم ۔یادو (MY)کا اتحاد قائم کرواکے ہندوئوں کی اونچی ذاتوں کو اقتدار سے بے دخل کرکے ، ہندو مسلم فرقہ واریت کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر سیاست کو متعارف کروایا۔ جس کی و جہ سے وہ تین بار بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔یادو دراصل شمالی بھارت میں مڈل کاسٹ یا دیگر پسماندہ طبقات کے زمرے میں آتے ہیں اور روایتی طور پر گائے، بھینس پالنے اور دودھ بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ اتر پردیش کی آبادی میں ان کا 8فیصد اور بہار میں 13،14فیصد ہے۔ مسلمانوں کا تناسب ان صوبوں میں بالترتیب 19فیصد اور 17فیصد ہے۔ اس وجہ سے ملائم سنگھ کے پاس 27فیصد کا ایک ٹھوس ووٹ بینک موجود تھا، جو ہر وقت انکی جھولی میں رہتا تھا۔ جون1996کو جب وہ جنتا دل مخلوط حکومت میں وزیر دفاع بنے، تو ان کی سماج وادی پارٹی کے ترجمان کی دہلی کے دفتر میں بریفنگ کے بعد ان کے دست راست اور صنعت کار امیتاب آدھار (جو ٹائمز آف انڈیا کے مالکان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے)ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ’’ چونکہ تم لوگ وزارت دفاع بھی کور کرتے آئے ہو، کیا کوئی یادو ذات کا آرمی آفیسر تم لوگوں کی نظر میں ہے۔‘‘ استفسار پر اس نے بتایا کہ نیتا جی (ملائم سنگھ یادو) نے حکم دیا ہے کسی یادو ذات کے آرمی آفیسرکا ہی ان کے دفتر میں بطور ملٹری سیکرٹری تقرر کیا جائے۔ وزیر دفاع کا ملٹری سیکرٹری عام طور پر میجر جنرل یا بریگیڈیر رینک کا افسر ہوتا ہے اور یہ ایک طرح سے آرمی اور وزیر کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے ۔ فوج سے متعلق تمام فائلیں اور ان پر نوٹنگ کرنا اور وزیر کیلئے بریف کرنا اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملائم سنگھ کی ان دنوں دہلی میں رہائش گاہ نہیں تھی، اس لئے وہ اوکھلا میں واقع اتر پردیش حکومت کے گیسٹ ہاوس میں مقیم تھے۔ چند روز بعد امیتاب نے وزارت دفاع کور کرنے والے اور چند دیگر صحافیوں کے ساتھ ان کی آف ریکارڈ ملاقات کروائی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ آخر کیوں یادو آرمی آفیسر کو ہی اپنے دفتر میں رکھنا چاہتے ہیں، کیا ان کو دیگر افسران پر بھروسہ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ، کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھے کسی اور افسر کی تقرری پر اعتراض نہیں ہے۔ میں تو بس سسٹم کو آئینہ دکھانا چاہتا تھا، کہ جب جنگ یا شورش ہوتی ہے، تو نچلے طبقات کے افراد ہی قربانیاں دیتے ہیں ، مگر افسروں کی پوسٹ پر اونچے طبقہ کے ہی افراد برا جمان ہوتے ہیں۔ یہ واقعی ایک حیرت کا مقام تھا کہ 12 لاکھ کی بھارتی فوج کے 40,000 افسران میں کوئی نچلے طبقہ کا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر مرحلے پر اب ہر طبقہ کو حصہ داری ملنی چاہئے۔ اس کیلئے ان کے پاس 1962، 1965اور 1971کی جنگوں میں ہلاک شدہ سپاہیوں کا ڈیٹا موجود تھا۔ان کی کہنا تھاکہ پسماندہ ذاتوں کا تناسب ملک کی آبادی میں 50 فی صد سے زیادہ ہے لیکن یہ تعلیم اور ملازمت میں بہت پیچھے ہیں اور بیشتر غربت کی لکیر پر رہتے ہیں۔ خیر بعد میں معلوم ہوا کہ ایک کرنل جو ریٹائرڈ ہو چکا تھا ، یادو ذات کا ان کو مل گیا تھا اور اسکو ہی انہوں نے ملٹری سیکرٹری بنوادیاتھا۔ وہ مارچ 1998تک وزیر دفاع رہے۔اس دوران انہوں نے حکم دیا کہ ہلاک شدہ فوجیوں کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن لایا جائے تاکہ اہل خانہ ان کی آخری رسومات میں شامل ہو سکیں اس سے پہلے یہ رسومات ان کے مذہب کے مطابق یونٹ کے مستقر پر ہی ادا کر دی جاتی تھیں۔گو کہ یہ ان کا احسن قدم تھا، مگر اسکا بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے خوب استعمال کیا۔چونکہ زیادہ تر ہلاکتیں یا تو پاکستانی سرحد پریا کشمیر میں ہوتی تھیں، آخری رسوم سے قبل ہندو قوم پرستوں جماعتیں پوری تحصیل یا ضلع میں ان لاشوں کو گھما گھماکر پاکستان ، کشمیر اور مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے کیلئے استعمال کرنے لگیں۔ 1999کی کرگل جنگ جب ختم ہو گئی تھی اور ایک بار پارلیمنٹ ہائوس کے کوریڈور میں انہوں نے صحافیوں کو طعنہ دیا کہ 1996میں تو میرے پیچھے پڑ گئے تھے، کیا اب کسی نے ہلاک شدہ سپاہیوں کی لسٹ کا بغور مطالعہ کیا ہے؟۔ ان کاکہنا تھا کہ پوری بھارتی فوج میں جہاں مسلمانوں کا تناسب 1.5فیصد سے بھی کم ہے، اس جنگ میں مہلوکین میں ان کا تناسب 38فیصد تھا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ اعداد و شمار انہوں نے ایک بار این ڈی ٹی وی کے انٹرویو میں بھی دیے تھے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ آئوٹ ریچ اور مسائل کا حال ڈھونڈنے میں وہ ماہر تھے۔ 1995میں کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو کے آخری دنوں میں بھارتی حکومت روس کے ساتھ جدید سخوئی جنگی طیارے خریدنے کیلئے مذاکرات کررہی تھی۔ قیمتوں پر اتفاق رائے سے قبل ہی حکومت نے 800ملین ڈالر روسی حکومت کو ٹرانسفر کر دیے،یہ ایک بڑا اسکینڈل تھا۔ اسی دوران کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوا اور اسکی حمایت سے جنتا دل کی قیادت میں یونائیٹڈ فرنٹ حکومت پہلے دیو ی گوڑا اور پھر اند ر کمار گجرال کی قیادت میں اقتدار میں آئی۔ قریباً ایک ماہ تک بی جے پی نے اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں خوب اچھالا اور تحقیق کی مانگ کی۔ لگتا تھا کہ یہ تو بوفورس توپوں سے بھی بڑا کرپشن کا اسکینڈل ہے۔ یاد رہے کہ بوفورس اسکینڈل کی وجہ سے 1989میں راجیو گاندھی کی حکومت چلی گئی تھی اور تب سے آج تک اپنے بل بوتے پر کانگریس پھرکبھی اقتدار میں نہیں آسکی ہے۔جب ملائم سنگھ وزیر دفاع تھے، تو ان دنوں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی اور راجیہ سبھا میں لیڈر جسونت سنگھ روز اس سخوئی طیارہ کے اسکینڈل کو اچھال کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ پارلیمنٹ کی کاروائی کو نو روز تک اپوزیشن نے جام کردیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد بی جے پی نے اچانک اسکو اچھالنا بند کردیا اور اس معاملے پر ایک معنی خیز خاموشی چھا گئی۔ تجسس کے مارے میڈیا نے بھی خوب ہاتھ پیر مارے، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ (جاری ہے)