بھارت کی 1971کی پاکستان کے خلاف، بنگلہ دیش جنگ جیتنے کا کریڈٹ تو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے علاوہ فوج کے پارسی سربراہ جنرل سام مانک شاہ اور مشرقی کمانڈ کے سکھ سربراہ لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو دیا جاتا ہے، مگر شاید کم ہی افراد کو علم ہوگاکہ اس جنگ کی عملی پلاننگ اور اسکو روبہ عمل لانے میں ایک یہودی فوجی افسر لیفٹنٹ جنرل جے ایف آر جیکب کا نہایت ہی اہم رول تھا۔ جنرل جیکب نے ہی پاکستانی فوج کی مشرقی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کو ایک عوامی تقریب کے دوران ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب دہلی میں وزیر اعظم کے دفتر میں خبر پہنچی کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور پاکستانی جنرل ایک عوامی تقریب میں ہتھیار ڈالنے والے ہیں تو اس خدشہ کے پیش نظر کہ ایک یہودی جنرل کے سامنے ایک پاکستانی مسلمان جنرل سے ہتھیار ڈالوانا کہیں عالمی طور پر خاص طور پر عرب ممالک میں سفارتی پیچیدگیوںکا شکار نہ ہوجائے تو انہوں نے سکھ جنرل جگجیت سنگھ کو اس تقریب میں جانے اور جنرل نیازی سے سرنڈ ر ڈاکیومنٹ پر دستخط کروانے کیلئے کہا۔ بھارت میں فوجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسی یہودی جنرل کی وجہ سے جنگ کا رخ بدل گیا۔ قصبوں کو بائی پاس کرکے سیدھے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کی طرف کوچ کرنے کے منصوبہ کو آرمی چیف اور مشرقی کمانڈ کے سربراہ کی حمایت حاصل نہ تھی۔ مگر واقعات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے اور جیکب کے منصوبہ میں فٹ بیٹھتے گئے۔ دہلی میں سوم وہار میں اپنی رہائش گاہ یا کسی نجی تقریب میں گلاس ہاتھ میں لئے وہ اکثر شکایت کرتے تھے کہ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے باوجود ان کو کوئی قومی اعزاز نہیں دیا گیا اور تو اور تاریخی فوٹو میں بھی ان کو جنرل اروڑہ کے پیچھے کھڑا کر دیا گیا۔ہاں بنگلہ دیش نے 2012میں ان کو قومی اعزازدیا۔اس کے بعد 2019 میں بعد از مرگ اسرائیل نے بھی ان کو نوازا۔ ان کی وردی تل ابیب کے فوجی میوزیم میں رکھی گئی ہے۔ سکھ جنرل اروڑہ کو بھی یہ شکایت تھی کہ جنرل مانک شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بجائے جنرل گوروناتھ اور پھر کشمیری پنڈت ٹی این رینہ کو فوجی سربراہ بنایا گیا اور جنرل جیکب کے ساتھ ا ن کو بھی لیفٹننٹ جنرل کی پوسٹ سے ہی ریٹائرہونا پڑا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی کیلئے جنگ کی تیاریوں کے دوران جنرل جیکب کی یہ اہمیت رہی کہ ان کی وجہ سے اسرائیل نے پورے مغربی بلاک کی مخالفت کو برداشت کرتے ہوئے بھارت کوہتھیار فراہم کردئے۔ اسرائیلی حکام بھارت کی فتح ایک یہودی جنرل کے سر پر بندھوانے کیلئے کمربستہ تھے۔ مورخ سری ناتھ راگھون نے اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہکسر کے دستاویزات کے حوالے سے لکھا ہے کہ خارجی انٹیلی جنس ایجنسی نے اسرائیل سے یہ ہتھیار جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کی سرحدوں پر ایک چھوٹے سے ملک لسٹن شائن کے ذریعے حاصل کئے، کیونکہ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اسرائیل نے اس دوران ایران کو اسلحہ کی منتقلی روک کر یہ امداد بھارت کو دی تھی۔ ایران اس جنگ میں پاکستان کا اتحادی تھا۔ ایک امریکی صحافی کے مطابق ہتھیاروں کے علاوہ اسرائیل نے خفیہ طور پر انسٹرکٹر بھی فراہم کیے تھے۔مارٹر اور گولہ بارود فراہم کرنے والے اسلحہ ساز کی شناخت پولش یہودی شلومو زابلو ڈ ویکز کے نام سے ہوئی ہے۔ جنرل جیکب کی ایما پر اسرائیل نے بھارت کو 160 ایم ایم ٹیمپیلا مارٹر دیے، جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ یہ ہتھیار مکتی باہنی میں بھی تقسیم کئے گئے۔ اسرائیلی ماہرین کے مطابق گو کہ بھارت کے ساتھ اس ملک کے سٹریٹجک رشتے 1949سے ہی قائم تھے، مگر چونکہ بھارتی حکمران عرب ممالک کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے تھے اس لئے کانگریسی حکومتیں ان کو سیاسی اہمیت دینے کی ہمت نہیں کر پاتی تھیں۔ کیونکہ بھارت کی انرجی سیکورٹی کا دارومدار ہی خلیجی ممالک پر تھا۔ بھارت اور اسرائیلی سفارت کاروں کے درمیان ابتدائی ملاقاتوں میں سے ایک ستمبر 1949 میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بہن وجیا لکشمی پنڈت ، جو ان دنوںواشنگٹن میںبھارت کی سفیر تھیں ،کی اپنے اسرائیلی ہم منصب الیاہو ایلتھ کے ساتھ ملاقات تھی۔ ایک ماہ بعد جب نہرو نے امریکہ کا دورہ کیا تو انہوں نے بھی اسرائیلی سفیر کے ساتھ ملاقات کی ۔1951 میں امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ابان کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا ۔ وہ بعد میں اسرائیل کے آٹھ سال تک وزیر خارجہ رہے۔ لہذا یہ نتیجہ نکالنا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں ہی قائم ہوئے ہیں، غلط ہوگا۔ ہاں مسلمانوں کو اذیت ملنے سے دائیں بازو کے ہندوتو ا کے پیروکاروں کو ذہنی لذت ملتی ہے اور وہ ہر ایسی حرکت کی آنکھیں موند کر حمایت کرتے ہیں۔ سفارتی طور پر اس جنگ میں جنوبی افریقہ کی طرح کا کردار نبھاتے ہوئے بھارت واقعی ترقی پذیر ممالک یا گلوبل ساوتھ کی لیڈرشپ کا حقدار ہوسکتا تھا۔ ابھی ایک ماہ قبل ہی نئی دہلی میں جی 20کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ بھارت اب گلوبل ساوتھ کی آواز بن گیا ہے اور یہ سبھی ممالک بھارت کو ایک با اعتماد شراکت دار اور لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب اس لیڈرشپ کے امتحان کا وقت آگیا تو بدقسمتی سے بھارت اس میں بری طرح ناکام رہا۔ امریکہ نے جب دوسری خلیجی جنگ کے دوران عراق پر فوج کشی کی تو اس وقت پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن تھا۔ جب نیویار ک میں اس کے مندوب نے فارن آفس سے ہدایت مانگی کہ سلامتی کونسل میں اس قضیہ کے حوالے سے پاکستان کو کیا پوزیشن لینی ہے تو صدر پرویز مشرف نے سوال کیا کہ پاکستان کو امریکہ بنام مسلم ممالک کے مسائل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر ان کو بتایا گیا کہ پاکستان حال ہی میں سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہوگیا ہے، اسلئے کوئی موقف اپنانا ضروری ہو گیا ہے تو انہوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس بڑے سائز کے جوتے میں پیرڈالنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ خیر چونکہ حملہ ایک مسلم ملک پر ہورہا تھا اس لئے پاکستانی سفیر نے اس قرار داد پر ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا۔ یہی کچھ حال اب اس وقت بھارت کے ساتھ بھی پیش آیاہے۔ ایک بڑے سائز کے جوتے میں پیر ڈالنے کے بعد اور گلوبل ساوتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ کرنے کے بعد اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فلسطین پر اپنے موقف پر قائم رہے یا مغربی دنیاکے استعمار کا ساتھ دے۔ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی مکمل مذمت قابل فہم ہے، لیکن اس کا تنازعات کے خاتمے یا شہری جانوں کے تحفظ کے لیے تحمل پر زور دینے سے بھی پرہیز کرنا نہایت ہی بدقسمتی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ یکجہتی'' کا اظہار باضابطہ طور پر مودی کے ذریعے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا جس کا اعادہ انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ بعد کی بات چیت کے دوران کیا۔ اس کوشش میںبھارت نے خود کو برکس گروپ (برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ)میں بھی الگ تھلگ کرلیا۔ بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر راجیش راجگوپالن اور خارجہ پالیسی کے ماہر ہرش وی پنت کے مطابق بھارت کی تمام تر توجہ ابھی حال ہی میں طے پائے گئے مشرق وسطی-یورپ اکنامک کوریڈور (IMEEC) کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ مگر شاید بھارت میں فیصلہ سازوں کے علم میں نہیں ہے کہ اس کا وجود ہی مشرق وسطیٰ میں امن اور مسائل کے پرامن حل پر منحصر ہے۔ کوئنسی انسٹی ٹیوٹ میں گلوبل ساؤتھ پروگرام کے ڈائریکٹر سارنگ شیدور کا استدلال ہے کہ اسرائیل کے لیے بھارت کی حمایت عالمی دہشت گردی کے خلاف اس کے موقف کو تقویت دیتی ہے۔مگر صرف اس ایک وجہ سے استعماری طاقتوں کی حمایت کرنے سے بھارت کی سفارتی حیثیت گھٹ گئی ہے جو ایک ماہ قبل آسمان کو چھو رہی تھی۔ سابق ہندوستانی سفارت کار ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور شہریوں کی جانوںکے ضیاع کے باوجود اس طرح کی کھلم کھلا حمایت سے بھارت نے گلوبل ساؤتھ میں اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔بھارت کی سفارت کاری دو کشتیوں پر سوار ہے۔ ایک طرف اسرائیل سے دوستی تو دوسری طرف ترقی پذیر ممالک یعنی گلوبل ساوتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ۔