یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پنجابی زبان کا ذخیرہ الفاظ 13لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے۔ حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ دنیا کے 193ممالک میں سے 160میں پنجابی آباد ہیں۔یہ اپنے ساتھ اپنی زبان اور الفاظ کے ذخیرے کو بھی پھیلا رہے ہیں۔ ان پنجابیوں کے حافظے میں کلاسیکلز میں سے سب سے زیادہ مضبوط اور مشترکہ حوالہ سید وارث شاہ ہیں۔ 160ممالک میں رہنے والے پنجابی بھلے اپنی زبان سے کتنے ہی نابلد ہو چکے ہوں‘ وہ وارث شاہ اور ان کی لکھی ہیر سے ضرور واقف ہیں۔ مجھے یاد ہے کوئی سترہ اٹھارہ برس قبل سمیع آہوجہ صاحب نے مجھے اپنے مضامین کا مجموعہ عطا کیا۔ میں دس صفحے پڑھ گیا لیکن صرف ایک لفظ کا مطلب جان پایا۔ سمیع آہوجہ ہماری مقامی زبانوں کے متروک الفاظ‘ ان کی تاریخ اور استعمال کے ماہر تھے۔ افسوس کسی نے ان سے یہ کمال نہ سیکھا۔ وارث شاہ کے ہم عصر اور ان سے پہلے کے پنجابی تخلیق کاروں نے دین کی تبلیغ ‘ اخلاقیات ‘ آفاقی سچائیوں اور انسانی سطح کے بھائی چارے کو اپنا موضوع بنایا۔ ان سب کی دلچسپی میں لسانی ترویج کی جگہ خیال کا عمدہ ابلاغ تھا۔ بابا فرید ‘ شاہ حسین‘ بابا بلھے شاہ‘ سلطان باہو اور خواجہ غلام فرید کی خیال آفرینی سے لوگ متاثر ہوئے۔ وارث شاہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خیال ‘ کردار اور احوال کو طاقت دینے کے لئے پنجابی کی لسانی قدرت کا بھر پور نمونہ پیش کیا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ یونیورسٹیوں میں وارث شاہ پر پی ایچ ڈی کے تھسیز میں ان کے فلسفہ عشق پر تو بہت زور دیا گیا لیکن تعلیمی اداروں اور عوامی سطح پر لسانی ذخیرے کا تجزیہ نہ کیا جا سکا۔ وارث شاہ نے سراپا لکھنے میں کمال دکھایا۔ ہیر کے ہونٹ سرخ یاقوت جیسے‘ یاقوت بھی وہ جو لعل کی طرح چمکے‘ تھوڑی ولایتی سیب جیسی‘ دانت چنبے کی لڑی ،یوں لگے گویا ہنس موتی پروئے ہوئے ہیں‘ حسن کے انار میں سے جیسے دانے نکلے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ وارث شاہ عشق کا ہی نہیں پنجابی لسانیات کا بھی وارث ہے۔ وارث شاہ نے صدیوں اور ہزاروں سال سے موجود پنجابی زبان کی ابلاغیاتی طاقت میں اضافہ کیا۔ اس میں کیا شک ہے کہ بھارت ہو یا پاکستان عالمی ادب میں پنجاب کی نمائندگی وارث شاہ ہی کرتے ہیں۔ وارث شاہ اٹھارویں صدی کے پنجاب کی ثقافتی زندگی کا عکس ہے‘ بلکہ میں تو کہوں گا وہ عکاس ہے۔ اہل پنجاب نے غیر ملکی اور حملہ آوروں کی زبانوں کو پذیرائی ضرور دی۔ مختلف زمانوں میں پنجابی زبان میں مخصوص الفاظ کا شامل ہونا اور پھر کچھ لفظوں کا متروک ہو جانا لسانی زندگی کی علامت ہے۔ یہ امر لائق توجہ ہونا چاہیے کہ ہیر اور رانجھے کا کردار پہلی بار وارث شاہ نے نہیں لکھا۔ ان سے پہلے بہت سے لوگوں نے طبع آزمائی کی اور داد بھی پائی۔ ہیر اور رانجھے کے کردار فارسی‘ ہندی اور اردو میں لکھے گئے لیکن مختلف لہجوں والے وسیع و عریض خطہ پنجاب میں قبولیت صرف وارث شاہ کی پنجابی کو ملی ۔منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ لفظ بھی سکہ ہوتے ہیں، وہی حکمران ہوتا ہے جس کا سکہ چلے۔ ستر کی دہائی میں ہیر رانجھا کے نام سے دو فلمیں بنیں‘ ایک فلم پاکستان میں بنی جس کے ہیرو اعجاز درانی اور ہیروئن فردوس تھیں۔ دوسری فلم بھارت میں بنی جس کے ہیرو راجکمار اور ہیروئن پریا راج ونش تھیں۔ بھارتی فلم کی زبان اردو(ہندی) تھی ۔اردو بھی نثری مکالموں والی نہیں بلکہ نظمیہ مکالموں کی شکل میں۔ اس بھارتی فلم کے کچھ گانے ضرور یاد رہ گئے لیکن جب بھی ہیر رانجھا فلم کی بات ہوتی ہے تو اعجاز والی فلم ہی ذہن میں آتی ہے۔ یہ فلم سید وارث شاہ کی بیان کی گئی کہانی کے مطابق اور اسی ثقافتی ماحول میں فلمائی گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وارث شاہ کا قصہ ایک متھ بن چکا ہے۔ یہ تبدیل کیا جا سکتا ہے نہ اب اس کا لسانی ماحول بدلا جا سکتا ہے۔ وارث شاہ نے قصہ ہیر رانجھا لکھنے کے بعد اپنے استاد حافظ غلام مرتضیٰ قصوری کو سنایا۔ استاد نے سن کر تبصرہ کیا: ’’وارث تونے جواہرات کو مونج کی ڈوری میں پرو دیا ہے‘‘۔ میاں محمد بخش سمیت بعد میں آنے والے کئی صوفیا وارث شاہ سے متاثر ہوئے۔ وارث شاہ نے 1722ء سے 1798ء کے اپنے دور زندگی میں پنجابی زبان کی حیثیت مستحکم کی۔ انہوں نے رومان اور عشق میں شدت کا اظہار کیا۔ شرپسند کو ولن اور خیر کے آرزو مند کو ہیرو بنایا۔ اگر پنجاب کے لوگوں نے خود کو اپنی زبان کے ساتھ جوڑ کر رکھنا ہے تو وارث شاہ کی زبان سیکھنا ہو گی۔ وارث شاہ سخن اور عشق کا وارث ہی نہیں وہ دکھی دلوں کو رونے کے لئے اپنا کندھا بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے تو امرتا پریتم نے 1947ء کے قتل عام پر کہا تھا: آج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول اک روئی سی دھی پنجاب دی تْوں ِلکھ ِلکھ مارے وین اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن اْٹھ دردمنداں دیا دردیا اْٹھ تک اپنا پنجاب اج بیلے لاشاں ِوچھیاں تے لہو دی بھری چناب وے گلے اوں ٹْٹے گیت فیر، ترکلے اوں ٹْٹی تند ترنجنوں ٹْٹیاں سہیلیاں چرکھڑے کْوکر بند دھرتی تے لہْو وسیا قبراں پیاں چون پرِیت دِیاں شاہ زادیاں اج وِچ مزاراں رون وے اج سبھے کیدو بن گئے ، حْسن عشق دے چور اج کتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اِک ہور